یوسف (اسلام)
پیغمبر | |
---|---|
يُوسُف Joseph | |
معلومات شخصیت | |
مقام پیدائش | کنعان |
مقام وفات | مصر |
زوجہ | آسناتھ |
اولاد | منسی |
والد | یعقوب |
والدہ | راحیل |
عملی زندگی | |
پیشہ | واعظ ، اسلامی نبی |
درستی - ترمیم |
مضامین بسلسلہ انبیائے اسلام |
---|
معلومات |
آدم علیہ السلام -
ادریس علیہ السلام - نوح علیہ السلام - ہود علیہ السلام - صالح علیہ السلام - ابراہیم علیہ السلام - لوط علیہ السلام - اسماعیل علیہ السلام - اسحاق علیہ السلام - یعقوب علیہ السلام - یوسف علیہ السلام - ایوب علیہ السلام - ذو الکفل علیہ السلام - شعيب علیہ السلام - موسیٰ علیہ السلام - ہارون علیہ السلام - داؤد علیہ السلام - سلیمان علیہ السلام - یونس علیہ السلام - الیاس علیہ السلام - الیسع علیہ السلام - زکریا علیہ السلام - یحییٰ علیہ السلام - عیسیٰ علیہ السلام - محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم - |
منسوب معجزات |
نظریات |
◈ ◈ |
یوسف علیہ السلام اللہ تعالٰی کے نبی تھے۔ آپ کا ذکر بائبل میں بھی ملتاہے۔ آپ یعقوب علیہ السلام کے بیٹے تھے۔ آپ کا تعلق انبیا اللہ کے خاندان سے تھا۔ گیارہ سال کی عمر سے ہی نبی ہونے کے آثار واضح ہونے لگے۔ آپ نے خواب میں دیکھا کہ گیارہ ستارے، سورج اور چاند آپ کو سجدہ کر رہے ہیں۔ آپ کے والد یعقوب علیہ السلام نے آپ کو اپنا خواب کسی اور کو سنانے سے منع کیا۔ قرآن مجید کی ایک سورت ان کے نام پہ ہے۔ قران نے یوسف علیہ السلام کے قصے کو احسن القصص کہا ہے۔ سورہ انعام اور سورہ غافر میں بھی ان کا ذکر آیا ہے۔ آپ نے 120 سال عمر پائی۔
حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ السلام کا نسب نامہ
یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم (علیہم السلام) اس طرح یوسف (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پڑپوتے ہیں ان کی والدہ کا نام راحیل بنت لیّان یا لایان ہے بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی والدہ کا انتقال ان کے چھوٹے بھائی بنیامین کی ولادت کے وقت مدت نفاس ہی میں ہو گیا تھا بنیامین حضرت یوسف (علیہ السلام) کے حقیقی بھائی تھے اور باقی بھائی علاقی (باپ شریک) تھے جن کے نام اوپر مذکور ہوئے۔
قرآن عزیز میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کا ذکر
حضرت یوسف (علیہ السلام) کا نام قرآن کریم میں ٣٦ مرتبہ آیا ہے جن میں سے ٢٤ مرتبہ صرف سورة یوسف میں آیا ہے اور بقیہ مرتبہ دیگر سورتوں میں اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کو یہ فخر بھی حاصل ہے کہ اپنے دادا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرح ان کے نام کی بھی قرآن کی ایک سورت (سورة یوسف) نازل ہوئی۔ قرآن عزیز نے یوسف (علیہ السلام) کے واقعہ میں جس قدر نوعیت کے اعتبار سے عجیب دل کش اور زمانہ عروج وزوال کی زندہ یادگار ہے، یہ ایک فرد کے ذریعہ قوموں کے بننے اور بگڑنے، گرنے اور ابھرنے کی ایسی بولتی ہوئی تصویر ہے جو کسی تشریح و توضیح کی محتاج نہیں۔
تاریخی و جغرافیائی حالات
اس قصہ کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ مختصراً اس کے متعلق کچھ تاریخی و جغرافیائی معلومات بھی ناظرین کے پیش نظر رہیں، حضرت یوسف (علیہ السلام) حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بیٹے اور اسحاق (علیہ السلام) کے پوتے اور حضرت ابراہیم کے پڑپوتے تھے، فلسطین میں حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی جائے قیام حبرون کی وادی میں تھی، حضرت اسحاق اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا مسکن بھی یہی تھا، اس کے علاوہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی کچھ زمین سکّم (موجودہ نابلس) میں بھی تھی، بائبل کے علما کی تحقیق اگر درست مان لی جائے تو یوسف کی پیدائش 1927 ق م کے لگ بھگ ہوئی اور 1914 ق م میں خواب کا واقعہ پیش آیا جس سے اس قصہ کی ابتدا ہوتی ہے۔
حضرت یوسف (علیہ السلام) کا خواب اور واقعہ کی ابتدا
اِذْ قال یوسف لابیہ یٰآبَتِ اِنِّیْ رأیتُ اَحَدَ عَشَرَ کو کبًا والشمس والقمر رأیتُھُمْ لی ساجدین حضرت یعقوب اپنی اولاد میں حضرت یوسف (علیہ السلام) سے بیحد محبت کرتے تھے یہ بات برادران یوسف کے لیے بے حد شاق اور ناقابل برداشت تھی اور وہ ہر وقت اس فکر میں لگے رہتے تھے کہ حضرت یعقوب علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دل سے اس کی محبت نکال ڈالیں یا پھر یوسف ہی کو راستہ سے ہٹا دیں تاکہ قصہ ہی پاک ہوجائے۔ ان بھائیوں کے حاسدانہ تخیل پر تازیانہ یہ ہوا کہ یوسف (علیہ السلام) نے ایک خواب دیکھا کہ گیارہ ستارے اور سورج، چاند ان کے سامنے سجدہ ریز ہیں، یعقوب (علیہ السلام) نے جب یہ خواب سنا تو سختی کے ساتھ یوسف (علیہ السلام) کو منع کر دیا کہ اپنا یہ خواب کسی سے بیان نہ کریں ایسا نہ ہو کہ تیرے بھائی تیرے ساتھ برائی سے پیش آئیں اور تیرے خواب کی تعبیر بہت صاف ہے، جس وقت حضرت یوسف (علیہ السلام) نے یہ خواب دیکھا تھا اس وقت حضرت یوسف (علیہ السلام) کی عمر باختلاف روایات ١٤، ١٣ یا ١٧ سال تھی۔
خواب کا مطلب
خواب کا صاف مطلب یہ تھا کہ سورج سے مراد حضرت یعقوب اور چاند سے مراد ان کی بیوی یعنی حضرت یوسف (علیہ السلام) کی سوتیلی والدہ اور گیارہ ستاروں سے گیارہ بھائی بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ شمس سے مراد والدہ اور قمر سے والد مراد ہیں حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا گیارہ ستاروں سے مراد یوسف (علیہ السلام) کے گیارہ بھائی اور چاند سورج سے مراد ان کے ماں باپ ہیں، والدہ راحیل کا اگرچہ انتقال ہو چکا تھا مگر اس وقت حضرت یوسف (علیہ السلام) کی خالہ لیّا حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے نکاح میں تھیں خالہ اور سوتیلی ماں چونکہ حقیقی ماں کے قائم مقام ہوتی ہے اس لیے خالہ کو والدہ سے تعبیر کیا ہے۔[1]
واقعہ کی تفصیل
حضرت یوسف (علیہ السلام) اور ان کے بھائیوں کے واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے کل بارہ بیٹے تھے ان میں سے ہر لڑکا صاحب اولاد ہوا ہے اور سب کے خاندان خوب پھلے پھولے، چونکہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا لقب اسرائیل تھا اس لیے یہ بارہ خاندان بنی اسرائیل کہلائے، (معارف) ان بارہ بیٹوں میں سے دس بیٹے یعقوب (علیہ السلام) کی پہلی بیوی لیاہ بنت لیّان کے بطن سے تھے، ان کی وفات کے بعد یعقوب (علیہ السلام) نے لیّا کہ بہن راحیل بنت لیان سے نکاح کر لیا ان کے بطن سے دو لڑکے یوسف (علیہ السلام) اور نبی بنیامین پیدا ہوئے، بنیامین حضرت یوسف (علیہ السلام) کے حقیقی بھائی تھے اور باقی دس علاتی بھائی تھے جن کے ناموں کی تفصیل اوپر گذر چکی ہے، حضرت یوسف (علیہ السلام) کی والدہ راحیل کا انتقال بھی ان کے بچپن میں بنیامین کی ولادت کے وقت ہو گیا تھا۔ دوسری آیت سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کا قصہ شروع ہوا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے اپنے والد صاحب کو دیکھا کہ وہ یوسف (علیہ السلام) سے غیر معمولی محبت رکھتے ہیں، اس پر ان کو حسد ہوا اور یہ بھی ممکن ہے کہ کسی طرح بھائیوں کو یوسف (علیہ السلام) کے خواب کا علم ہو گیا ہو جس سے انھوں نے محسوس کیا ہو کہ یوسف کی بڑی شان ہونے والی ہے اس سے حسد ہوا اور وہ سمجھتے ہوں کہ محبت تو ہم سے زیادہ ہونی چاہیے اس لیے کہ ہم ایک بڑی اور طاقتور جماعت ہیں وقت پڑنے پر ہم ہی کام آسکتے ہیں یہ بچے کیا کام آسکتے ہیں ؟ اس لیے ہمارے والد صاحب کی یہ کھلی ناانصافی ہے اس کے علاج کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں یا تو یوسف کو قتل کرو دو تاکہ قصہ پاک ہوجائے یا پھر ان کو کسی دور دراز ملک میں پہنچا دو اس طرح والد صاحب کی توجہ اور محبت تمھارے ساتھ مخصوص ہوجائیگی، رہا قتل یا کنویں میں ڈالنے کا گناہ تو بعد میں توبہ کرکے تم نیک بن سکتے ہو ۔
جب بھائیوں کے درمیان مشورہ میں یہ بات طے ہو گئی کہ یوسف کو کسی اندھیرے کنویں میں ڈال دیا جائے تو اپنے والد صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور خیر خواہانہ انداز میں یہ درخواست پیش کی کہ ابا جان یہ کیا بات ہے کہ آپ کو یوسف کے بارے میں ہم پر اطمینان نہیں حالانکہ ہم اس کے پورے خیر خواہ اور ہمدرد ہیں، کل آپ اس کو ہمارے ساتھ سیرو تفریح کے لیے بھیج دیجئے کہ وہ بھی آزادی کے ساتھ کھائے پیئے اور کھیلے کودے اور ہم اس کی پوری طرح حفاظت کریں گے، حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا میں اس کو تمھارے ساتھ بھیجنا دو وجہ سے پسند نہیں کرتا اول مجھے اس نور نظر کے بغیر چین نہیں آتا دوسرے یہ کہ مجھے خطرہ ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمھاری غفلت کی وجہ سے اسے کوئی بھیڑیا کھاجائے۔
یعقوب (علیہ السلام) کو بھیڑیئے کا خطرہ محسوس ہونے کی وجہ
یعقوب (علیہ السلام) نے بھیڑئیے کا خطرہ یا تو اس وجہ سے محسوس کیا کہ سر زمین کنعان میں بھیڑئیے زیادہ تھے اور یا اس وجہ سے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے ایک خواب دیکھا تھا کہ وہ خود ایک پہاڑ کے اوپر ہیں اور یوسف (علیہ السلام) پہاڑ کے دامن میں ہیں اچانک دس بھیڑیوں نے یوسف پر حملہ کرنا چاہا مگر ان میں سے ایک بھیڑئیے نے مدافعت کرکے چھڑا دیا، پھر یوسف (علیہ السلام) زمین کے اندر چھپ گئے، جس کی تعبیر بعد میں اس طرح ظاہر ہوئی کہ دس بھیڑئیے یہ دس بھائی تھے اور جس بھیڑیئے نے مدافعت کرکے ان کو ہلاکت سے بچایا وہ بڑے بھائی یہوذا تھے اور زمین میں چھپ جانا کنوئیں کے گہرائی کی تعبیر ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس سے ایک روایت میں منقول ہے کہ یعقوب (علیہ السلام) کو اس خواب کی بنا پر خود ان بھائیوں سے خطرہ تھا انھی کو بھیڑیا کہا تھا مگر مصلحتاً پوری بات ظاہر نہیں کی۔
امام قرطبی نے یوسف (علیہ السلام) کو کنوئیں میں ڈالنے کا واقعہ یہ بیان کیا ہے کہ جب ان کو کنوئیں میں ڈالنے لگے تو وہ کنوئیں کی من سے چمٹ گئے بھائیوں نے ان کے ہاتھ باندھ دیے تاکہ کسی چیز کو پکڑ نہ سکیں، اس وقت یوسف (علیہ السلام) نے پھر ان سے فریاد کی مگر بجائے ان پر رحم کرنے کے جواب یہ ملا کہ گیارہ ستارے جو تجھے سجدہ کرتے ہیں ان کو بلا، وہی تیری مدد کریں گے، پھر ایک ڈول میں رکھ کر کنویں میں لٹکایا اور درمیان ہی میں رسی کاٹ دی اللہ تعالیٰ نے یوسف (علیہ السلام) کی حفاظت فرمائی اور قریب ہی ایک پتھر کی چٹان جو باہر کو نکلی ہوئی تھی صحیح سالم اس پر بیٹھ گئے، بعض روایات میں ہے کہ جبرائیل نے ان کو چٹان پر بٹھا دیا۔ یوسف (علیہ السلام) تین روز کنوئیں میں رہے ان کا بھائی یہوذا دوسرے بھائیوں سے چھپ کر روزانہ ان کے لیے کھانا لاتا اور ڈول کے ذریعہ ان تک پہنچا دیتا۔
شام کو بھائیوں کا روتے ہوئے آنا
عشاء کے وقت یہ بھائی روتے ہوئے اپنے باپ کے پاس پہنچے حضرت یعقوب ان کے رونے کی آواز سن کر باہر آئے، معلوم کیا کیا حادثہ پیش آیا ہے کیا تمھاری بکریوں پر کسی نے حملہ کیا ہے ؟ اور یوسف کہاں ہے ؟ تو بھائیوں نے کہا، ہم آپس میں دوڑ لگانے میں مشغول ہو گئے اور یوسف کو اپنے سامان کے پاس چھوڑ دیا، اس درمیان یوسف کو بھیڑیا کھا گیا اور ہم کتنے ہی سچے ہوں آپ کو ہمارا یقین تو آئے گا نہیں۔
قافلہ کا ورود اور یوسف (علیہ السلام) کو کنوئیں سے نکالنا
اتفاقاً ایک قافلہ اس سرزمین پر آنکلا یہ قافلہ شام سے مصر جا رہا تھا اور راستہ بھٹک کر اس غیر آباد میدان میں پہنچ گیا اور پانی کے لیے پانی کے منتظم سقے کو کنوئیں پر بھیجا، گو لوگوں کی نظر میں یہ اتفافی واقعہ تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حکمت تکوینی میں کوئی بخت و اتفاق نہیں، حق تعالیٰ شانہ، جس کی شان فَعّالٌ لما یرید ہے مخفی حکمتوں کے تحت ایسے حالات پیدا فرما دیتے ہیں کہ ظاہری واقعات سے ان کو جوڑ سمجھ میں نہیں آتا تو انسان ان کو اتفافی حوادث قرار دیتا ہے۔ بہرحال قافلہ والوں نے اپنے ایک شخص کو جس کے ذمہ پانی کی فراہمی کی ذمہ داری تھی اس کا نام مالک بن ذعر بتلایا جاتا ہے پانی لانے کے لیے بھیجا، جب اسنے کنوئیں میں ڈول ڈالا تو یوسف (علیہ السلام) نے ڈول پکڑ لیا اور جو ڈول نکالا تو ایک کمسن نہایت ہی خوبرو بچہ برآمد ہوا بچہ کو دیکھ کر وہ فوراً ہی چلا اٹھا ” یا بشریٰ ھذا غلام “ بڑی خوشی کی بات ہے یہ تو بڑا اچھا لڑکا نکل آیا، جب یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کو معلوم ہوا کہ قافلہ والوں نے یوسف کو کنوئیں سے نکال لیا ہے تو دوڑے ہوئے پہنچے، اس مقام پر بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ برادران یوسف کو قافلے والوں کے ساتھ فروخت کر دیا مگر مفسرین کے اس قول کی تائید نہ تورات سے ہوتی ہے اور نہ روایات سے اور نہ قرآن عزیز کی آیات سے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ قافلے والوں ہی نے یوسف (علیہ السلام) کو کنوئیں سے نکالا اور غلام بنا لیا اور مال تجارت کے ساتھ ان کو مصر لے گئے۔[2]
یوسف (علیہ السلام) اور غلامی
سلسلہ واقعہ کی اگلی کڑی یہ ہے کہ یوسف کے بھائیوں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو ایک اسماعیلی مدیانی قافلے کے ہاتھوں ایک قلیل قیمت میں غلام گریختہ قرار دے کر فروخت کر دیا، یہ قافلہ شام سے مصر کو بخورات، بلسان اور مسالا جات لے کر جا رہا تھا، بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ یوسف کو خود ان کے بھائیوں نے ہی کنویں سے نکال کر قافلہ کے ہاتھوں فروخت کیا تھا، مگر مفسرین کے اس قول کی تائید و موافقت نہ تو تورات کرتی ہے اور نہ قرآن عزیز، بلکہ دونوں سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ قافلے والوں ہی نے یوسف (علیہ السلام) کو کنویں سے نکالا اور اپنا غلام بنا لیا اور مال تجارت کے ساتھ اس کو بھی مصر لے گئے۔
حضرت یوسف (علیہ السلام) کی زندگی اور عظمتیں
حضرت یوسف (علیہ السلام) کی زندگی کا یہ پہلو اپنے اندر کس قدر عظمتیں پنہاں رکھتا ہے اس کا اندازہ وہی کرسکتا ہے جو چشم بصیرت رکھتا ہے، چھوٹی سی عمر ہے، والدہ کا انتقال ہو چکا ہے، باپ کی آغوش محبت تھی وہ بھی چھوٹی، وطن چھوٹا بھائیوں نے بے وفائی کی، آزادی کی جگہ غلامی نصیب ہو گئی، مگر ان تمام باتوں کے باوجود نہ آہ وزاری ہے اور نہ جزع و فزع، قسمت پر شاکر، مصائب پر صابر اور قضائے الٰہی پر راضی برضاء سرِ نیازخم کیے ہوئے بازار مصر میں فروخت ہونے کے لیے جا رہے ہیں۔
یوسف (علیہ السلام) مصر میں
تقریباً دو ہزار سال قبل مسیح مصر تمدن و تہذیب کا گہوارہ سمجھا جاتا تھا یہاں کے حکمراں عمالقہ (ہکیسوس) تھے مصر کے حکمراں کا لقب فرعون ہوا کرتا تھا، جس وقت حضرت یوسف (علیہ السلام) ایک غلام کی حیثیت سے مصر میں داخل ہوئے، مصر کا دار السلطنت رعمیس تھا یہ غالباً اسی جگہ واقع تھا جہاں آج صان کی بستی واقع ہے، ان دنوں مصر کا حکمراں ریّان بن ولید تھا اور بعض نے ریان بن اسید بتایا ہے، اتفاق کی بات ہے کہ ملک مصر کا وزیر مالیات جس کو تورات نے فوطیفار یا قطفیر اور قرآن نے عزیز بتایا ہے ایک روز بازار مصر سے گذر رہا تھا کہ اس کی نظر یوسف (علیہ السلام) پر پڑی جن کی بولی لگ رہی تھی، لوگ بڑھ چڑھ کر قیمت لگا رہے تھے یہاں تک کہ یوسف (علیہ السلام) کے وزن کے برابر سونا اور اسی کے برابر مشک اور اتنے ہی ریشمی کپڑے قیمت لگ گئی، یہ دولت اللہ تعالیٰ نے عزیز مصر کے لیے مقدر کی تھی اس نے بڑی بھاری قیمت دیکر یوسف (علیہ السلام) کو خرید لیا۔
عزیز مصر کی بیوی اور یوسف (علیہ السلام)
حضرت یوسف (علیہ السلام) کا جوانی کا عالم تھا حسن و خوبروئی کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جو ان کے اندر موجود نہ ہو، جمال و رعنائی کا پیکر مجسم، رخ روشن شمس و قمر کی طرح منور، عصمت و حیا کی فراوانی سونے پر سہاگہ اور ہر وقت کا ساتھ، عزیز مصر کی بیوی دل پر قابو نہ رکھ سکی دامن صبر ہاتھ سے چھوٹ گیا، یوسف پر بہ ہزار جان پروانہ وار قربان ہونے لگی، مگر ابراہیم (علیہ السلام) کا پوتا اسحاق و یعقوب کا نور دیدہ، خانوادہ نبوت کا چشم و چراغ اور منصب نبوت کے لیے منتخب بھلا اس سے یہ کس طرح ممکن تھا کہ ناپاکی اور فحش میں مبتلا ہو اور عزیز مصر کی بیوی کے ناپاک عزم کو پورا کرے۔
زلیخا کا جادو نہ چل سکا
لیکن مصر کی اس آزاد عورت نے جب اس طرح جادو چلتے نہ دیکھا تو ایک روز بے قابو ہو کر مکان کے دروازے بند کر دیے اور اصرار کرنے لگی کہ مجھے شاد کام کر، حضرت یوسف (علیہ السلام) کے لیے یہ وقت سخت آزمائش کا تھا، شاہی خاندان کی نوجوان عورت، شعلہ حسن سے لالہ رو، محبوب نہیں بلکہ عاشق، آرائش حسن کی بے پناہ نمائش، عشوہ طرازیوں کی بارش، ادھر یوسف (علیہ السلام) خود نوجوان، دروازے بند کسی کا نہ خوف اور نہ ڈر، مالکہ خود ذمہ دار، حالات ہر طرح سازگار، مگر کیا حالات کی سازگاری سے یوسف نے ایک لمحہ کے لیے بھی عزیز مصر کی بیوی کی حوصلہ افزائی کی، کیا اس کے دل نے قرار چھوڑ کر بے قراری کی، کیا نفس نے ثبات قلب کو ایک لمحہ کے لیے بھی متزلزل کیا ؟ نہیں ہرگز نہیں، بلکہ اس کے برعکس اس پیکر عصمت، امین نبوت مہبط وحی الٰہی نے دو ایسے معقول و محکم دلائل سے اس مصری حسینہ کو سمجھانے کی کوشش کی جو ایک ایسی ہستی ہی سے ممکن تھے جس کی تربیت براہ راست آغوش الٰہی میں ہوئی ہو، فرمایا یہ ناممکن ہے، پناہ بخدا، میں اور اس کی نافرمانی کروں جس کا اسم جلالت اللہ ہے اور وہ تمام کائنات کا مالک و مولا ہے اور کیا میں اپنے اس مربی عزیز مصر کی امانت میں خیانت کروں جس نے غلام سمجھنے کی بجائے مجھے یہ عزت و حرمت بخشی، اگر میں ایسا کروں تو ظالم ٹھہروں گا اور ظالموں کے لیے انجام و مآل کے اعتبار سے کبھی فلاح نہیں ہے۔ مگر عزیز مصر کی بیوی پر اس نصیحت کا مطلق اثر نہ ہوا اور اس نے اپنے ارادہ کو عملی شکل دینے پر اصرار کیا، تب یوسف نے اپنے اس برہان ربی کے پیش نظر جس کو وہ دیکھ چکے تھے صاف انکار کر دیا۔ وراودتہ التی ھو فی بیتھا عن نفسہ وغلقت الابواب وقالت ھیت لک قال معاذ اللہ انا ربی احسن مثوای انہ لا یفلح الظلمون ولقد ھمت بہ ربھم بھا لولا أن راٰبرھان ربہ کذلک لنصرف عنہ السوء و الفحشاء انہ من عبادنا المخلصین۔ اور پھسلایا یوسف کو اس عورت نے جس کے گھر میں وہ رہتے تھے اس کے نفس کے بارے میں اور دروازے بند کر دیے اور کہنے لگی آمیرے پاس آ، یوسف نے کہا خدا کی پناہ بلاشبہ (عزیز مصر) میرا مربی ہے جس نے مجھے عزت سے رکھا، بلاشبہ ظالم فلاح نہیں پاتے اور البتہ اس عورت نے یوسف سے ارادہ کیا اور وہ بھی ارادہ کرتے اگر اپنے پروردگار کی برہان نہ دیکھ لیتے اور اس طرح ہوا تاکہ ہٹائیں ہم ان سے برائی اور بے حیائی کو بیشک وہ ہمارے مخلص بندوں میں ہے۔
وہ برہان رب کیا تھا ؟
جس برہان کو دیکھ کر حضرت یوسف (علیہ السلام) بدی کے ارادہ سے بھی باز رہے وہ کیا تھا ؟ قرآن کریم نے یہ واضح نہیں کیا کہ وہ برہان رب کیا تھا ؟ قرآن مجید نے اپنی بلیغانہ اور معجزانہ خطابت میں خود ہی اس کو اس طرح بیان کر دیا ہے کہ اس کے بعد سوال کی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی دروازہ بند ہوجانے پر عزیز کی بیوی کو حضرت یوسف (علیہ السلام) نے جواب دیا ایسے مقام کے لحاظ سے اس سے بہتر جواب کیا ہو سکتا تھا، سو یہی وہ برہان رب تھا جو یوسف کو عطا ہوا اور جس نے عصمت یوسف کو بے داغ رکھا، یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اسے اس کے بعد بڑے شدومد سے بیان کیا، ” کذلک “ یوں ہی ہوا۔ ” تاکہ ہٹا دیں ہم اس سے برائی اور بے حیائی، بیشک وہ ہمارے مخلص بندوں میں سے ہے “۔
خلاصہ یہ ہے کہ حضرت یعقوب کی صورت کا نظر آنا اور ان کا اشارہ سے منع کرنا یا فرشتہ کا ظاہر ہو کر اس کو اس سے روکنا یا عزیز کے گھر میں رکھے ہوئے بت پر عزیز مصر کی بیوی کا پردہ ڈالنا اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کا اس سے عبرت حاصل کرنا ان تمام اقوال کے مقابلہ میں ” برہان رب “ کی وہی تفسیر بہتر ہے جو قرآن عزیز کی نظم و ترتیب سے ثابت ہے یعنی (١) ایمان باللہ کا حقیقی تصور (٢) مربی مجازی کے احسان کی احسان شناسی اور وصف امانت۔ بہرحال حضرت یوسف جب دروازے کے طرف بھاگے تو عزیز کی بیوی نے پیچھا کی دروازہ کسی طرح کھل گیا سامنے عزیز مصر اور عورت کا چچا زاد بھائی کھڑے ہوئے تھے عورت ان کو دیکھ کر سٹپٹاگئی اور اصل حقیقت کو چھپانے کے لیے غیظ و غضب میں آکر کہنے لگی کہ ایسے شخص کی سزا قید خانہ یا دردناک سزا کے علاوہ اور کیا ہو سکتی ہے جو تیرے اہل کے ساتھ ارادہ بد رکھتا ہو، حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اس کے مکر و فریب کو سنا تو فرمایا، یہ اس کا بہتان ہے اصل حقیقت یہ ہے کہ خود اس نے میرے ساتھ ارادہ بد کیا تھا مگر میں نے کسی طرح نہ مانا اور بھاگ کر باہر نکل جانا چاہتا تھا کہ اس نے پیچھا کیا اتفافاً سامنے آپ نظر آگئے تو اس نے یہ جھوٹ گھڑ لیا۔
عزیز کی بیوی کا چچا زاد بھائی ذکی یعنی سمجھدار اور ہوشیار تھا اس نے کہا یوسف کا پیراہن دیکھنا چاہیے اگر وہ سامنے سے چاک ہے تو عورت راستباز ہے اور اگر پیچھے سے چاک ہے تو یوسف صادق القول ہے اور عورت جھوٹی ہے جب دیکھا گیا تو یوسف کا پیراہن پیچھے سے چاک تھا عزیز مصر نے اصل حقیقت کو سمجھ لیا مگر اپنی عزت و ناموس کی خاطر معاملہ کو ختم کرتے ہوئے کہا، یوسف سچے تم ہی ہو اور اس عورت کے معاملہ سے درگزر کرو اور اس کو یہیں ختم کردو اور پھر بیوی سے کہا یہ سب تیرا مکر ہے اور تم عورتوں کا مکرو فریب بہت ہی بڑا ہوتا ہے بلاشبہ تو ہی خطا کار ہے لہٰذا اپنی اس حرکت بد کے لیے استغفار کر اور معافی مانگ۔
بعض روایات میں کہا گیا ہے کہ یہ شہادت پیش کرنے والا ایک شیر خوار بچہ تھا خدا نے اسے قوت گویائی عطا فرمائی اور اس بچہ نے یہ شہادت دی، لیکن یہ روایت کسی صحیح قوی سند سے ثابت نہیں ہے اور نہ اس معاملہ میں خواہ مخواہ معجزہ سے مدد لینے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اس شاہد نے جس قرینہ کی بنیاد پر جس شہادت کی طرف توجہ دلائی ہے وہ سراسر ایک معقول شہادت ہے اور اس کو دیکھنے سے بیک نظر معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ شخص ایک معاملہ فہم اور جہاندیدہ آدمی تھا جو صورت معاملہ سامنے آتے ہی معاملہ کی تہ تک پہنچ گیا، مفسرین کے یہاں شیرخوار بچہ کا قصہ دراصل یہودی روایات سے آیا ہے۔ [3]
تفسیروں میں ایک مرفوع روایت کے حوالہ سے آتا ہے کہ یہ گواہ ایک شیرخوار بچہ تھا جو بطور خرق عادت حضرت یوسف (علیہ السلام) کی صفائی میں بول اٹھا تھا، لیکن بہت سے ائمہ تفسیر نے اس کے علاوہ کہا ہے کہ یہ شخص زلیخا کا چچا زاد بھائی تھا جو شاہی درباریوں میں سے تھا، ما کان بصبی ولکن کان رجلا حکیما (ابن جریر عن عکرمہ) یہاں شہادت سے عرفی اور اصطلاحی شہادت مراد نہیں ہے جس کے لیے عاقل بالغ مسلمان عادل اور موقع پر موجود ہونا شرط ہے یہ اصطلاحات بعد کی پیداوار ہیں، یہ گواہی تو صرف اس معنی میں تھی کہ اس نے فریقین کے متضاد بیانات کے درمیان فیصلے کا ایک عاقلانہ طریقہ سمجھا دیا۔[4]
نسوۃ عزیز مصر نے اگرچہ فضیحت و رسوائی سے بچنے کے لیے اس معاملہ کو یہیں ختم کر دیا مگر بات پوشیدہ نہ رہ سکی اور شدہ شدہ شاہی خاندانوں کی عورتوں میں یہ چرچا ہونے لگا کہ عزیز مصر کی بیوی کس قدر بے حیا ہے کہ اپنے غلام پر ریجھ گئی، اتنے بڑے مرتبہ کی عورت اور غلام سے اختلاط کا ارادہ ؟ آہستہ آہستہ اس طعن وتشنیع کی خبر عزیز کی بیوی تک بھی پہنچ گئی، اس کو یہ طعن بیحد شاق گذرا اور اس نے چاہا کہ اس کا انتقام لے اور ایسا انتقام لے جس بات پر وہ مجھ پر طعن کرتی ہیں اسی میں ان کو مبتلا کیا جائے یہ سوچ کر ایک روز شاہی خاندان اور عمائدین شہر کی عورتوں کے کھانے کی دعوت دی اور جب کھانا کھانے کے لیے دستر خوان پر بیٹھ گے ئیں اور سب نے ترنج یا گوشت وغیرہ کاٹنے کے لیے چھریاں ہاتھ میں لے لیں تب عزیز کی بیوی نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ وہ باہر آئیں حضرت یوسف (علیہ السلام) مالکہ کے حکم سے باہر نکلے تو تمام عورتیں جمال یوسف کو دیکھ کر دنگ رہ گئیں اور رخ انور کی تجلی و تابانی سے اس قدر متاثر ہوئیں کہ چیزیں کاٹنے کی بجائے بیخودی میں اپنے ہاتھ کاٹ لیے اور بے ساختہ کہنے لگیں کہ کون کہتا ہے یہ انسان ہے ؟ بخدا یہ تو نور کا پتلا اور بزرگ فرشتہ ہے یہ دیکھ کر عزیز کی بیوی بیحد محفوظ ہوئی اپنی کامیابی اور ان کی شکست پر فخر کرتے ہوئے کہنے لگی یہی تو وہ غلام ہے جس کے عزق و محبت کے بارے میں تم نے مجھ کو مطعون کر رکھا ہے، اب اس کو دیکھ کر خود تمھارا حال کیا ہے ؟ اب تم خود ہی بتاؤ میرا یہ عشق بجا ہے یا بے جا اور تمھاری ملامت برمحل ہے یا بے محل؟ .
مصری عورتوں کی یہ مدہوشی دیکھ کر اس کو مزید حوصلہ ہو گیا اور شرم و حیا کے سارے حجاب درکنار کرکے اس نے اپنے برے ارادہ کا ایک مرتبہ پھر اظہار کیا اور یہ بھی کہا کہ بیشک میں نے اس کا دل اپنے قابو میں لینا چاہا تھا مگر وہ قابو میں نہ ہوا، مگر یہ کہے دیتی ہوں اگر اس نے میرا کہنا نہ مانا تو اس کو جیل جانا پڑے گا اور بہت ذلیل و خوار ہوگا۔ قال رب السجن احب الی الخ ذرا ان حالات کا اندازہ کیجئے جن حالات میں یوسف مبتلا تھے، انیس بیس سال کا ایک خوبصورت نوجوان ہے جو بدویانہ زندگی سے بہترین تندرستی اور بھری جوانی لے کر آیا ہے جلاوطنی اور جبری غلامی کے مراحل سے گزرنے کے بعد قدرت اسے رئیس اور رکن سلطنت کے گھر لے آئی ہے، یہاں پہلے تو خود گھر کی بیگم ہی اس کے پیچھے پڑجاتی ہے جس سے اس کا شب و روز کا سابقہ ہے پھر اس کے حسن کا چرچا پورے دار السلطنت میں ہونے لگتا ہے اور شہر بھر کے امیر گھرانوں کی عورتیں اس پر فریفتہ ہوجاتی ہیں، اب ایک طرف وہ اور دوسری طرف سینکڑوں خوبصورت جال ہیں جو ہر وقت ہر جگہ اسے پھانسنے کے لیے پھیلے ہوئے ہیں، اس حالت میں یہ خدا پرست نوجوان جس کامیابی کے ساتھ ان شیطانی ترغیبات کا مقابلہ کرتا ہے وہ بجائے خود کچھ کم قابل تعریف نہیں ہے مگر اس پر بھی وہ اپنی بشری کمزوریوں کا خیال کرکے کانپ اٹھتا ہے اور نہایت عاجزی کے ساتھ خدا سے دل ہی دل میں مدد کی التجا کرتا ہے کہ اے رب میں ایک کمزور انسان ہوں میرا اتنا بل بوتاکہاں کہ ان بے پناہ ترغیبات کا مقابلہ کرسکوں تو مجھے سہارا دے اور مجھے اپنی پناہ رکھ، ڈرتا ہوں کہ کہیں میرے قدم نہ پھسل جائیں۔
یوسف (علیہ السلام) زندان میں
بہرحال یوسف (علیہ السلام) کو قید خانہ بھیج دیا گیا اور ایک بے خطا کو خطا وار، معصوم کو مجرم بنادیا گیا تاکہ بیوی فضیحت و رسوائی سے بچ جائے اور مجرم کو کوئی مجرم نہ کہہ سکے عزیز مصر اور اس کے دوستوں کو اگرچہ یوسف (علیہ السلام) کی پاکدامنی کی کھلی نشانیاں ایکھ کر یقین ہو گیا تھا مگر شہر میں اس واقعہ کا چرچا ہونے لگا اس کو ختم کرنے کے لیے مصلحت اسی میں نظر آئی کی کچھ عرصہ کے لیے یوسف (علیہ السلام) کو جیل بھیج دیا جائے اور یہ مصلحت بھی پیش نظر ہو سکتی ہے کہ اس بہانے سے یوسف کو اپنی بیوی سے الگ کر دیا جائے تاکہ وہ دوبارہ اس قسم کی حرکت نہ کرسکے۔[5]
یوسف (علیہ السلام) پس دیوار زندان اور دو نوجوانوں کا جیل خانہ میں دخول
حسن اتفاق کہ یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ دو نوجوان بھی قید خانہ میں داخل ہوئے، یہ دونوں نوجوان شاہی دربار سے وابستہ تھے ایک ان میں سے بادشاہ کا ساقی تھا اور دوسرا شاہی باروچی خانہ کا ذمہ دار، جس زمانہ میں یہ واقعہ پیش آیا اس زمانہ کے فرعون کا نام ریان بن الولید تھا اور اس ساقی کا نام ابروہایا ادیونا تھا اور دوسرے کا نام مخلب یا غالب تھا، نام کے بارے میں روایات مختلف ہیں۔
ان دونوں جوانوں کے جیل میں جانے کی وجہ
بیان کیا گیا ہے کہ مصر کے کچھ لوگوں نے جو بادشاہ سے کسی وجہ سے ناراض تھے بادشاہ کو راستہ سے ہٹانے کی سازش کی اور اس کا آلہ کار ان دونوں جو نوانوں کو بنایا ان کو یہ لالچ دیا کہ اگر تم بادشاہ کے کھانے یا پانی میں زہر ڈال کر بادشاہ کو ہلاک کردو گے تو تمھیں بہت سا مال دیں گے، یہ دونوں نوجوان اس پر آمادہ ہو گئے مگر بعد میں ساقی اس معاملہ سے الگ ہو گیا لیکن نان پز اس پر قائم رہا اور بادشاہ کے کھانے میں اس نے زہر ملا دیا جب کھانا بادشاہ کے سامنے آیا تو ساقی نے عرض کیا کہ آپ اس کھانے کو نہ کھائیں اس لیے کہ یہ کھانا زہر آلود ہے اور خباز نے جب یہ صورت حال دیکھی تو کہا بادشاہ سلامت آپ یہ مشروب نہ پئیں اس لیے کہ اس میں زہر ملا ہوا ہے بادشاہ نے ساقی سے کہا تم اس مشروب کو پیو چنانچہ ساقی نے پی لیا اور اس کو کوئی نقصان نہیں ہوا اس کے بعد نان پز سے کہا تم یہ کھانا کھاؤ اس نے انکار کر دیا، وہ کھانا ایک جانور کو کھلا کر تجربہ کیا گیا چنانچہ وہ جانور مسموم کھانا کھا کر مرگیا، بادشاہ نے دونوں کو قید خانہ بھیج دیا ساقی کو ابتداً شریک سازش ہونے کیوجہ سے اور خباز کو مجرم ہونے کی وجہ سے۔ [6]
قید خانہ میں دعوت و تبلیغ
حضرت یوسف (علیہ السلام) خدا کے پیغمبر تھے دعوت و تبلیغ کے ساتھ ساتھ عبادت و ریاضت تقویٰ و طہارت راستبازی و حسن کرداری کے لحاظ سے قید خانہ میں ممتاز تھے تمام قیدی آپ کی عزت و احترام کرتے تھے حتی کہ قید خانہ کا داروغہ بھی آپ کا معتقد ہو گیا تھا غرض کہ آپ کی نیک نامی کی شہرت عام تھی زندانیاں اپنی ضرورتوں میں بھی حضرت یوسف (علیہ السلام) کی طرف رجوع کرتے تھے آپ ان کے ساتھ شفقت و مہربانی سے پیش آتے اگر ان کے بس میں ہوتا تو ان کی مدد کرتے یا داروغہ سے سفارش کرکے مدد کرتے اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو تعبیر رؤیا کا خصوصی علم بھی عطا کیا تھا ایک روز وہ دونوں نوجوان آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ ہمیں آپ نیک آدمی معلوم ہوتے ہو ہم نے خراب دیکھا ہے آپ اس کی تعبیر بتائیں، یہاں بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ ان نوجوانوں نے کوئی خواب نہیں دیکھا تھا محض یوسف (علیہ السلام) کی آزمائش کے لیے انھوں نے فرضی خواب بیان کیے تھے علامہ سیوطی کی رائے بھی یہی ہے مگر دیگر اکثر مفسرین کی رائے اس کے خلاف ہے۔
قیدیوں کے خواب
خلاصہ یہ کہ دونوں نوجوانوں نے اپنے خواب بیان کیے اول ساقی نے کہا میں نے جواب دیکھا ہے کہ شراب کے لیے انگور نچوڑ رہا ہوں اور دوسرے نے کہا میں نے یہ دیکھا ہے کہ میرے سر پر روٹیوں کا خوان ہے اور پرندے اس سے کھا رہے ہیں۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نبی اور نبی زاد تھے دین کی تبلیغ کا ذوق ان کے رگ و ریشہ میں پیوست تھا، اس لیے دین حق کی اشاعت ان کی زندگی کا نصب العین تھا، گو قید میں تھے مگر مقصد حیات کیسے فراموش کرسکتے تھے ؟ موقع کو غنیمت جانا اور ان سے نرمی اور محبت سے فرمایا، بیشک اللہ تعالیٰ نے جو باریں مجھے تعلیم فرمائی ہیں منجملہ ان کے تعبیر رؤیا کا علم بھی اس نے مجھے عطا کیا ہے، میں اس سے پہلے کہ تمھارا مقررہ کھانا تم تک پہنچے تمھارے خوابوں کی تعبیر بتادوں گا، مگر میں تم سے ایک بات کہتا ہوں ڈرا اس پر بھی غور کرو اور سمجھو۔ میں نے ان لوگوں کی ملت کا اختیار نہیں کیا جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتے اور آخرت کے بھی منکر ہیں میں نے اپنے آباء و اجداد یعنی ابراہیم، اسحٰق اور یعقوب (علیہم السلام) کی ملت کی پیروی کی ہے ہم ایسا نہیں کرسکتے کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو بھی شریک ٹھہرائیں، یہ اللہ کا ایک فضل ہے جو اس نے ہم پر کیا ہے لیکن اکثر لوگ اس نعمت کا شکر ادا نہیں کرتے اے دوستو ! تم نے اس پر بھی غور کیا کہ جدا جدا معبودوں کا ہونا بہتر ہے یا یکتا اللہ کا جو سب پر غالب ہے، تم اس کو علاوہ جن کی بھی بندگی کرتے ہو ان کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں کہ چند نام ہیں جن کو تمھارے باپ دادا نے گھڑ لیا ہے، اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں برہان و سند نہیں اتاری حکومت تو صرف اللہ ہی کی ہے اس نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو یہی راہ مستقیم ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں جس کی وجہ سے وہ شکر گزار بھی نہیں ہیں۔
حضرت یوسف (علیہ السلام) کا خواب کی تعبیر بتانا
یاصاحبی۔ کما، توحید کی نصیحت کرنے کے بعد ان کے خوابوں کی تعبیر کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا دوستو ! جس نے یہ دیکھا ہے کہ وہ انگور نچوڑ رہا ہے وہ قید سے رہا ہو کر حسب سابق بادشاہ کے ساقی کی خدمت انجام دے گا اور جس نے روٹیوں والا خواب دیکھا ہے اسے سولی دی جائے گی اور پرندے اس کے سر کو نوچ نوچ کر کھائیں گے، جن باتوں کے بارے میں تم نے سوال کیا تھا وہ فیصل ہو چکیں اور فیصلہ یہی ہے۔[7]
پردہ غیب سے یوسف (علیہ السلام) کی رہائی کی صورت
آیات مذکورہ میں یہ بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پردہ غیب سے یوسف (علیہ السلام) کی رہائی کی صورت پیدا فرمائی کہ بادشاہ مصر نے ایک خواب دیکھا جس سے وہ بہت پریشان ہوا اور اپنی مملکت کے تعبیر دانوں، کاہنوں اور نجومیوں کو بلایا تاکہ ان سے خواب کی تعبیر دریافت کرے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا واقعہ فراعنہ مصر کے زمانہ سے تعلق رکھتا ہے، فراعنہ کا خاندان نسلی اعتبار سے عمالقہ میں سے تھا، مصر کی تاریخ میں ان کو ہکسوس کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے اور ان کی اصلیت کے متعلق کہا گیا ہے کہ یہ چرواہوں کی ایک قوم تھی، جدید تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ یہ قوم عرب سے آئی تھی دراصل یہ عرب عاربہ کی ایک شاخ تھی۔ مصر کے مذہبی تخیل کی بنا پر ان کا لقب فاراع (فرعون) تھا اس لیے کہ مصری دیوتاؤں میں سب سے بڑا اور مقدس دیوتائے امن، راع (سورج دیوتا) تھا اور بادشاہ وقت اس کا اوتار (یعنی) فاراع کہلاتا تھا یہی فاراع عبرانی میں فارعن ہوا اور عربی میں فرعون کہلایا، حضرت یوسف (علیہ السلام) کے زمانہ کے فرعون کا نام ریان بن ولید بتایا گیا ہے اور مصری جدید تحقیقات آثار میں آیونی کے نام سے موسوم ہے۔
شاہ مصر کا خواب
طویل مدت کے بعد ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے اس رہا ہونے والے ساقی کو سیدنا یوسف کا پیغام یاد دلایا۔ واقعہ یہ ہوا کہ شاہ مصر کو ایک عجیب اور ڈراؤنا سا خواب آیا۔ خواب میں اس نے دیکھا کہ سات دبلی گائیں ہیں جو اپنے سے بہت بھاری سات موٹی تازی گائیوں کا گوشت کھا رہی ہیں اور گوشت کھا کر انھیں ختم ہی کر دیا ہے اور یہ سارا گوشت چٹ کر جانے کے بعد بھی وہ دبلی کی دبلی ہی ہیں۔ جیسے پہلے تھیں اور دوسرا منظر یہ دیکھا ہے کہ سات سوکھی بالیاں ہیں جو سات ہری بھری اور سرسبز بالیوں کے اوپر لپٹ گئی ہیں اور انھیں بھی سوکھا بنادیا ہے۔
بہرحال یوسف (علیہ السلام) بھی زندان ہی میں تھے کہ وقت کے فرعون نے ایک خواب دیکھا، فرعون نے تعبیر دانوں نجومیوں اور کاہنوں کو خواب کی تعبیر معلوم کرنے کے لیے بلایا گیا مگر خواب سنکر سب نے کہہ دیا کہ یہ تواضغاث احلام ہیں ہم ایسے خوابوں کی تعبیر نہیں جانتے اگر کوئی صحیح خواب ہو تو ہم اس کی تعبیر بتاسکتے ہیں، بادشاہ کو کاہنوں اور تعبیر دانوں کے جواب سے اطمینان نہ ہوا، اسی اثناء میں ساقی کو اپنا خواب اور یوسف (علیہ السلام) کی تعبیر کا واقعہ آگیا، اس نے بادشاہ کی خدمت میں عرض کیا کہ اگر اجازت ہو تو میں اس کی تعبیر لاسکتا ہوں، بادشاہ کی اجازت سے وہ اسی وقت قید خانہ پہنچا اور یوسف (علیہ السلام) کو بادشاہ کا خواب سنایا اور کہا کہ آپ اس کو حل کیجئے کیونکہ آپ سچائی اور تقدس کے پیکر ہیں، آپ ہی اس کو حل کرسکتے ہیں اور کیا عجب ہے کہ جن لوگوں نے مجھے بھیجا ہے جب میں صحیح تعبیر لے کر ان کے پاس واپس جاؤں تو وہ آپ کی حقیقی قدرومنزلت سمجھ لیں۔
حضرت یوسف (علیہ السلام) کا کمال صبر
حضرت یوسف کے کمال صبر و استقلال کا اندازہ کیجئے اور جلالت قدر کا اندازہ لگائیے کہ جن ظالموں نے مجھ بے قصور کو زندان میں ڈالا ہے وہ اگر تباہ ہوجائیں اور اس خواب کا حل نہ پاکر برباد ہوجائیں تو اچھا ہے ان کی یہی سزا ہے، ایسا کچھ بھی نہیں بلکہ اس سلسلہ میں صحیح تدبیر بھی بتلا دی اور ساقی کو پوری طرح مطمئن کرکے فرمایا اس خواب کی تعبیر اور اس کی بنا پر جو کچھ تم کو کرنا چاہیے وہ یہ کہ تم سات سال تک لگاتار کھیتی کرتے رہو اور یہ تمھاری خوش حالی کے سال ہوں گے جب کھیتی کٹنے کا وقت آئے تو جو مقدار تمھارے سال بھر کھانے کے لیے ضروری ہو اس کو الگ کرلو اور باقی غلہ کو ان کے خوشوں میں رہنے دو تاکہ محفوظ رہے اور گلے سڑے نہیں اس کے بعد سات سال سخت قحط سالی کے آئیں گے وہ تمھارا جمع کیا ہوا تمام ذخیرہ ختم کر دیں گے، اس کے بعد پھر ایک سال ایسا آئے گا کہ خوب بارش ہوگی کھیتیاں ہری بھری ہوں گی اور لوگ پھلوں اور دانوں سے عرق اور تیل بہتات کے ساتھ نکالیں گے۔ ساقی نے دربار میں جاکر پورا واقعہ بادشاہ کو سنا دیا خواب کی تعبیر سنکر بادشاہ یوسف (علیہ السلام) کے علم و دانش اور جلالت قدر کا قائل ہو گیا اور نادیدہ مشتاق بنکر کہنے لگا ایسے شخص کو میرے پاس لاؤ۔
بادشاہ کا قاصد یوسف (علیہ السلام) کی خدمت میں
جب بادشاہ کا قاصد یوسف (علیہ السلام) کے پاس پہنچا اور بادشاہ کی طلب و اشتیاق کا حال سنایا تو حضرت یوسف (علیہ السلام) نے قید خانہ سے باہر آنے سے انکار کر دیا اور فرمایا کہ اس طرح تو میں جانے کو تیار نہیں ہوں تم اپنے آقا کے پاس جاؤ اور اس سے کہو کہ وہ یہ تحقیق کرے کہ ان عورتوں کا معاملہ کیا تھا جنھوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے ؟ پہلے یہ بات صاف ہوجائے کہ انھوں نے کیسی کچھ مکاریاں کی تھیں اور میرا مالک تو ان مکاریوں سے بخوبی واقف ہے۔ [8]
حضرت یوسف (علیہ السلام) کا واقعہ کی تحقیق کا مطالبہ
حضرت یوسف (علیہ السلام) بے قصور اور بے خطا برسوں جیل میں رہے بلاوجہ ان کو زندانی بنا کر رکھا اب جبکہ بادشاہ نے مہربان ہو کر رہائی کا مژدہ سنایا تو چاہیے تھا کہ وہ مسرت اور خوشی کے ساتھ زندان سے باہر نکل آتے، مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا اور گذشتہ معاملہ کی تحقیق کا مطالبہ شروع کر دیا، اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) خانوادہ نبوت سے ہیں اور خود بھی نبی ہیں اس لیے غیرت و حمیت اور عزت نفس کے بدرجہ اتم مالک ہیں انھوں نے سوچا کہ اگر بادشاہ کی اس مہربانی پر میں رہا ہو گیا تو یہ بادشاہ کا رحم و کرم سمجھا جائے گا اور میرا بے قصور ہونا پردہ خفا میں رہ جائے گا اس طرح صرف عزت نفس ہی کو ٹھیس نہیں لگے گی بلکہ دعوت و تبلیغ کے اس اہم مقصد کو بھی نقصان پہنچے گا جو میری زندگی کا عین مقصد ہے، لہٰذا اب بہترین وقت ہے کہ معاملہ کی اصل حقیقت سامنے آجائے اور حق ظاہر اور واضح ہوجائے
غرض کہ بادشاہ نے جب یہ سنا تو ان عورتوں کو بلوایا اور ان سے کہہ دیا کہ صاف صاف اور صحیح صحیح بتاؤ کہ اس معاملہ کی اصل حقیقت کیا ہے، جب تم نے یوسف پر ڈورے ڈالے تھے تاکہ تم اس کو اپنی طرف مائل کرلو تو وہ ایک زبان ہو کر بولیں۔ قلن حاش للہ ما علمنا علیہ من سوء۔ ” بولیں حاشا للہ ہم نے اس میں کوئی برائی نہیں پائی “۔ مجمع میں عزیز مصر کی بیوی بھی موجود تھی اس نے جب یہ دیکھا کہ یوسف کی خواہش ہے کہ حقیقت حال سامنے آجائے تو بے اختیار بول اٹھی۔ الئٰن حصحص الحق انارا ودتہ عن نفسہ وانہ لمن الصّٰدقین۔ ” جو حقیقت تھی وہ اب ظاہر ہو گئی ہاں وہ میں ہی تھی جس نے یوسف پر ڈورے ڈالے کہ اپنا دل ہار بیٹھی بلاشبہ وہ (اپنے بیان میں) بالکل سچا ہے “۔
بادشاہ نے کہا کہ اس کو (جلد) میرے پاس لاؤ کہ میں اس کو اپنے کاموں کے لیے مخصوص کرلوں یوسف (علیہ السلام) جب بایں رعنائی و دلبری، بایں عصمت و پاکبازی اور بایں عقل و دانش زندان سے نکل کر بادشاہ کے دربار میں تشریف لائے، بات چیت ہوئی تو بادشاہ حیران رہ گیا کہ اب تک جس کی راستبازی، امانت داری اور وفاء عہد کا تجربہ کیا تھا وہ عقل و دانش اور حکمت و فطانت میں بھی اپنی نظیر آپ ہے اور مسرت کے ساتھ کہنے لگا، ” انک الیوم لدینا مکین امین “ پھر اس نے دریافت کیا کہ میرے خواب میں جس قحط سالی کا ذکر ہے اس کے متعلق مجھ کو کیا تدابیر اختیار کرنی چاہئیں ؟ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے جواب دیا۔ قال اجعلنی ۔۔ علیم، یوسف (علیہ السلام) نے کہا اپنی مملکت کے خزانوں پر آپ مجھے مختار کیجئے میں حفاظت کرسکتا ہوں اور اس کام کا کرنے والا ہوں۔ چنانچہ بادشاہ نے ایسا ہی کیا اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اپنی تمام مملکت کا امین و کفیل بنادیا اور شاہی خزانوں کی کنجیاں ان کے حوالہ کرکے مختار عام کر دیا۔
حضرت یوسف (علیہ السلام) کی آسناتھ سے شادی
یوسف علیہ السلام اور آسناتھ کے رشتہ کا ذکر بائبل کی تین آیات میں ہوا ہے۔ ان کے تعلقات کا ذکر پہلی بار پیدائش 41: 45 میں کیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس فرعون نے اون کے پجاری پوٹفیرا کی بیٹی ،آسناتھ کو جوزف(یوسف علیہ السلام) کو اپنی بیوی کے طور پر دیا تھا۔ بعد میں یہ پیدائش 41:50 میں ذکر ہوا ہے کہ قحط سالوں سے پہلے یوسف کے دو بیٹے آسناتھ کے ساتھ تھے۔ ان دو بیٹوں کا نام منسیٰ تھا ، جو پہلا پیدا ہوا تھا اور دوسرے بیٹے کا نام افرائیم تھا ، جو دوسرا پیدا ہوا تھا۔ بعد میں ابتدا 46:20 میں جوزف(یوسف علیہ السلام) کے خاندان میں جوزف اور آسناتھ کا ذکر ہے جس میں ذکر کیا گیا ہے کہ مصر میں ، یوسف کے دو بیٹے تھے جن کا نام منسی اور افرائیم تھا اور اون کا پجاری پوٹفیرا کی بیٹی آسناتھ نے جوزف کے دو بیٹوں کو جنم دیا تھا۔ [9]
مصر میں قحط کی ابتدا
غرض جب قحط سالی کا زمانہ شروع ہوا تو مصر اور اس کے قرب و جوار کے علاقہ میں بھی سخت کال پڑا اور کنعان میں خاندان یعقوب بھی اس سے محفوظ نہ رہ سکا جب حالت نزاکت اختیار کرگئی تو حضرت یعقوب نے صاحبزادوں سے کہا کہ مصر میں عزیز مصر نے اعلان کیا ہے کہ اس کے پاس غلہ محفوظ ہے، تم سب جاؤ اور غلہ خرید کر لاؤ چنانچہ باپ کے حکم کے مطابق یہ کنعانی قافلہ عزیز مصر سے غلہ لینے کے لیے مصر روانہ ہوا، خدا کی قدرت دیکھیے کہ برادران یوسف کا یہ قافلہ اسی بھائی سے غلہ لینے چلا ہے جس کو اپنے خیال میں وہ کسی مصری گھرانے کا معمولی اور گمنام غلام بنا چکے تھے مگر اس یوسف فروش قافلہ کو کیا معلوم کہ وہ کل کا غلام آج مصر کے تاج و تخت کا مالک و مختار ہے اور اس کو اسی کے سامنے عرض حال کرنا ہے بہرحال کنعان سے چلے اور مصر جا پہنچے اور جب دربار یوسفی میں پیش ہوئے تو یوسف (علیہ السلام) نے ان کو پہچان لیا البتہ وہ یوسف (علیہ السلام) کو نہ پہچان سکے۔ [10]
غرض جب قحط سالی کا زمانہ شروع ہوا تو مصر کے قرب و جوار کے علاقہ میں بھی سخت کام پڑا، کنعان میں خاندان یعقوب (علیہ السلام) بھی اس سے محفوظ نہ رہ سکا جب حالت نزاکت اختیار کرگئی تو حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے صاحبزادوں سے کہا کہ مصر میں عزیز مصر نے اعلان کیا ہے کہ اس کے پاس غلہ محفوظ ہے تم سب جاؤ اور غلہ خرید کر لاؤ چنانچہ والد صاحب کے حکم سے یہ نکعانی قافلہ غلہ خریدنے کے لیے مصر کے لیے روانہ ہوا خدا کی قدرت دیکھیے کہ برادران یوسف کا یہ قافلہ اسی بھائی سے غلہ لینے چلا ہے جس کو اپنے خیال میں وہ کسی مصری گھرانے کا معمولی غلام بنا چکے تھے مگر اس یوسف فروش قافلہ کو کیا معلوم کہ وہ کل کا ” غلام “ آج مصر کے تاج و تخت کا مالک و مختار ہے اور اس کو اسی کے سامنے عرض حال کرنا ہے بہرحال جب دربار یوسفی میں پیش ہوئے تو یوسف (علیہ السلام) نے ان کو پہچان لیا، البتہ وہ یوسف (علیہ السلام) کو نہ پہچان سکے کیونکہ جب یوسف کو کنویں میں ڈالا تو اس وقت ان کی عمر دس بارہ سال رہی ہوگی اور اب چالیس سال کا عرصہ گذر چکا ہے اتنی مدت میں ہر چیز میں تبدیلی آجاتی ہے اور اگر کسی طرح شبہ کرتے بھی تو کس طرح ؟ ان کے وہم و گمان میں بھی بات نہیں آسکتی تھی کہ یوسف اور تخت شاہی۔
برادران یوسف پر جاسوسی کا الزام
تورات کا بیان ہے کہ برادران یوسف پر جاسوسی کا الزام لگایا گیا اور اسی وجہ سے ان کو یوسف (علیہ السلام) کے روبرو پیش کیا گیا جس کی وجہ ان کو یوسف (علیہ السلام) سے بالمشافہ گفتگو کرنے کا موقع ملا، غرض یہ کہ یوسف (علیہ السلام) نے والد، حقیقی بھائی اور گھر کے حالات کو خوب کرید کرید کر معلوم کیا اور آہستہ آہستہ سب کچھ معلوم کر لیا اور پھر ان کی حسب مرضی غلہ بھر دیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ قحط اس قدر شدید ہے کہ تم کو دوبارہ یہاں آنا پڑے گا اس لیے یاد رکھو اب کی مرتبہ اگر تم آؤ تو اپنے جھوٹے بھائی کو ضرور ساتھ لانا اگر تم اس کو ساتھ نہ لائے تو ہرگز غلہ نہیں ملے گا
برادران یوسف نے کہا کہ ہم اپنے والد کو سمجھائیں گے اور ہر طرح ترغیب دیں گے کہ وہ بنیامین کو ہمارے ساتھ یہاں بھیجنے پر راضی ہوجائیں پھر جب وہ یوسف (علیہ السلام) سے الوداعی ملاقات کرنے آئے تو انھوں نے اپنے نوکروں کو حکم دیا کہ خاموشی کے ساتھ ان کے کجاوؤں میں ان کی وہ پونجی بھی رکھ دو جو انھوں نے غلہ کی قیمت کے نام سے دی ہے تو عجب نہیں کہ وہ اس پونجی کو مصری بیت المال کا مال ہونے کی وجہ سے اپنے لیے حلال نہ سمجھتے ہوئے واپس کرنے کے لیے آئیں، ابن کثیر نے یوسف (علیہ السلام) کے اس عمل میں کئی احتمال بیان کیے ہیں ایک تو یہی جو اوپر بیان ہوا، دوسرا یہ کہ شاید یوسف (علیہ السلام) کو یہ خیال ہوا ہو کہ ہو سکتا ہے کہ ان کے پاس اس نقدی کے علاوہ اور نقدی نہ ہو جس کی وجہ سے دوبارہ غلہ لینے کے لیے نہ آسکیں تیسرے یہ کہ اپنے والد اور بھائیوں سے کھانے کی قیمت لینا گوارا نہ کیا ہو اور اس غلہ کی قیمت شاہی خزانہ میں اپنے پاس سے جمع کرا دی ہو۔ بہرحال یوسف (علیہ السلام) نے یہ انتظامات اس لیے کیے کہ آئندہ بھی بھائیوں کے آنے کا سلسلہ جاری رہے اور چھوٹے حقیقی بھائی بنیامین سے ملاقات بھی ہوجائے۔
برادران یوسف واپس کنعان میں
برادران یوسف کا قافلہ جب واپس کنعان پہنچا تو انھوں نے سفر کی پوری روداد اپنے والد یعقوب (علیہ السلام) کو سنائی اور ان سے کہا کہ مصر کے والی نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ اس وقت تک آئندہ غلہ کے لیے یہاں ہرگز نہ آنا جب تک کہ اپنے علاتی بھائی کو ساتھ نہ لاؤ، لہٰذا آپ سے درخواست ہے کہ آپ اسے ہمارے ساتھ مصر بھیج دیں ہم اس کی ہر طرح نگرانی اور حفاظت کریں گے۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا کیا تم پر اسی طرح اعتماد کروں جس طرح اس کے بھائی یوسف کے بارے میں کرچکا ہوں اور تمھاری حفاظت ہی کیا اصل حفاظت اللہ بڑے رحم کرنے والے کی ہے۔ اس گفتگو سے فارغ ہونے کے بعد انھوں نے اپنا سامان کھولنا شروع کیا تو دیکھا کہ ان کی پونجی انھی کو واپس کردی گئی ہے، یہ دیکھ کر وہ کہنے لگے، اباجان اس سے زیادہ اور ہم کو کیا چاہیے ؟ دیکھیے غلہ بھی ملا اور ہماری پونجی بھی جوں کی توں لوٹا دی گئی، اس نے تو ہم سے قیمت بھی نہ لی اب ہمیں اجازت دیجئے کہ ہم دوبارہ اس کے پاس جائیں اور گھر والوں کے لیے رسد لائیں اور بنیامین کو بھی ہمارے ساتھ بھیج دیجئے اس کی حفاظت کے ہم ذمہ دار ہیں اور ایک اونٹ کا بوجھ اور زیادہ لائیں گے اس لیے کہ یہ غلہ جو ہم لائے ہیں کافی نہیں ہے۔
یعقوب (علیہ السلام) کا بنیامین کو ساتھ بھیجنے سے انکار
بہرحال یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا کہ بنیامین کو ہرگز تمھارے ساتھ نہیں بھیجوں گا جب تک کہ تم اللہ کے نام پر مجھ سے عہد نہ کرو اور یہ کہ جب تک ہم خود نہ گھیر لیے جائیں اور ہر طرح سے مجبور کر دیے جائیں ہم اس کو ضرور آپ کے پاس واپس لائیں گے، جب سب نے متفقہ طور پر اپنے والد کے سامنے عہد کیا اور ہر طرح اطمینان دلایا تب حضرت یعقوب نے فرمایا کہ جو کچھ ہوا محض اسباب ظاہری کی بنا پر ہے ورنہ کیا تم اور کیا تمھاری حفاظت اور کیا ہم اور کیا ہمارا عہد ہم سب کو خدا کی نگہبانی چاہیے۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے بیٹوں کو رخصت کرتے وقت نصیحت فرمائی کہ دیکھو سب ایک دروازہ سے داخل نہ ہونا بلکہ متفرق دروازوں سے داخل ہونا اور یہ بھی فرمایا کہ اس نصیحت کا مقصد یہ نہیں ہے کہ تم اپنی تدابیر پر مغرور ہو بیٹھو، کیونکہ میں تمھیں کسی ایسی بات سے ہرگز نہیں بچا سکتا جو اللہ کے حکم سے ہونے والی ہو، حکم تو صرف اللہ تعالیٰ ہی کا چلتا ہے اس لیے میں نے جو کچھ کہا ہے وہ صرف احتیاطی تدابیر کے طور پر ہے اور احتیاطی تدابیر کو استعمال کرنا خدا پرستی کے خلاف نہیں ہے۔ ولما دخلوا ۔ الخ یعنی برادران یوسف مصر میں اپنے والد محترم کی نصیحت کے مطابق ہی داخل ہوئے مگر ضروری نہیں کہ احتیاطی تدابیر ہر جگہ راست ہی آجائیں، اگر خدا تعالیٰ کی مشیت اس کے برعکس مصلحت دیکھتی ہے تو پھر وہی ہو کر رہتا ہے اور سب تدابیر بیکار ہو کر رہ جاتی ہیں۔
یوسف (علیہ السلام) کا اپنے والد کو اپنے حالات سے باخبر نہ کرنا امر الٰہی سے تھا
حضرت یوسف (علیہ السلام) کے اس واقعہ میں ایک بات نہایت حیرت انگیز یہ ہے کہ ایک طرف تو ان کے والد صاحب جو خدا کے پیغمبر بھی تھے ان کی مفارقت سے اس قدر متاثر ہوئے کہ روتے روتے نابینا ہو گئے اور دوسری طرف یوسف (علیہ السلام) خود بھی نبی ہیں، باپ سے فطری اور طبعی محبت کے علاوہ ان کے حقوق سے بھی پوری طرح باخبر ہیں لیکن چالیس سال کے طویل زمانہ میں ایک مرتبہ بھی یہ خیال نہ آیا کہ میرے والد میری جدائی سے بے چین ہیں اپنی خیریت کی خبر کسی طرح ان تک پہنچا دیتے لیکن یوسف (علیہ السلام) سے کہیں منقول نہیں کہ انھوں نے اس کا ارادہ بھی کیا ہو اور بھائیوں کو بھی اظہار واقعہ کے بغیر ہی رخصت کر دیا۔ یہ تمام حالات کسی ادنی انسان سے بھی متصور نہیں ہو سکتے اللہ کے برگزیدہ رسول سے یہ صورت کیسے برداشت ہوئی ؟ حقیقت یہ کہ اللہ نے ہی وحی کے ذریعہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اظہار حال سے روک دیا تھا کہ اپنے گھر کسی قسم کی کوئی خبر نہ دیں تفسیر قرطبی میں اس کی صراحت موجود ہے کون اللہ تعالیٰ کی حکمتوں کا احاطہ کرسکتا ہے ؟ اللہ اپنی حکمتوں کو خود ہی خوب جانتا ہے، بظاہر اس کی اصل حکمت اس امتحان کی تکمیل تھی جو یعقوب (علیہ السلام) کا لیا جا رہا تھا۔ [11]
برادران یوسف دوبارہ مصر آنا
جب برادران یوسف شہر مصر میں داخل ہوئے اور حضرت یوسف (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی تو حضرت یوسف (علیہ السلام) نے دیکھا کہ یہ وعدہ کے مطابق ان کے حقیقی چھوٹے بھائی بنیامین کو بھی ساتھ لے آئے ہیں تو یوسف (علیہ السلام) نے ان کی کافی آؤ بھگت کی اور شاہی اکرام کے ساتھ ان کو ٹھہرانے کا انتظام کیا، دو دو بھائیوں کو ایک ایک کمرہ میں ٹھہرایا چونکہ برادران یوسف گیارہ تھے دو دو ایک ایک کمرہ میں ٹھہرنے کے بعد بنیامین تنہا رہ گئے تو ان کو تنہا ایک کمرہ میں ٹھہرایا اس میں مصلحت یہ تھی کہ موقع نکال کر بنیامین سے تنہائی میں باتیں ہو سکیں چنانچہ آپس میں تنہائی میں خوب باتیں ہوئی ہوں گے دونوں حقیقی بھائیوں کی ملاقات ایک مدت دراز یعنی بیس اکیس سال بعد ہو رہی ہے، حضرت یوسف (علیہ السلام) نے بتایا ہوگا کہ وہ کن کن حالات سے گذرتے ہوئے اس مرتبہ پر پہنچے ہیں، بنیامین نے سنا ہوگا کہ ان کے سوتیلے بھائیوں نے ان کے ساتھ کیا کیا بدسلوکیاں کیں ہیں پھر حضرت یوسف (علیہ السلام) نے تسلی دی ہوگی کہ اب گھبرانے کی بات نہیں ہے مصیبتوں کے دن ختم ہو چکے ہیں اب تم میرے ہی پاس رہو گے، یقیناً یوسف (علیہ السلام) کی یہ دلی خواہش رہی ہوگی کہ کسی طرح اپنے عزیز بھائی بنامین کو اپنے پاس روک لے اور یقیناً اس کے لیے کوئی تدبیر بھی ضرور سوچی ہوگی، مگر انتہائی خواہش کے باوجود یوسف (علیہ السلام) کے لیے ایسا کرنا ممکن نہ تھا اس لیے کہ مصری قانون میں کسی غیر مصری کو بغیر کسی معقول وجہ کے روک لینا سخت منع تھا اور حضرت یوسف (علیہ السلام) یہ کسی طرح نہیں چاہتے تھے کہ اس وقت لوگوں پر یا ان کے بھائیوں پر اصل حقیقت منکشف ہو۔
بنیامین کو روک لینے کی تدبیر
حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے حقیقی بھائی بنامین کو اپنے پاس روکنے کے لیے یہ حیلہ اور تدبیر اختیار کی کہ جب سب بھائیوں کو قاعدہ کے موافق غلہ دیدیا گیا تو ہر بھائی کا غلہ الگ الگ اونٹ پر رکھا گیا۔ بنیامین کے لیے جو غلہ اونٹ پر لادا گیا اس میں ایک برتن چھپا دیا گیا، اس برتن کو قرآن مجید نے ایک جگہ لفظ ” سقایہ “ سے اور دوسری جگہ ” صواع الملک “ کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے سقایہ کے معنی ہیں پانی پینے کا برتن اور صواع بھی اسی قسم کا ایک برتن ہوتا ہے اور ناپنے کے برتن کو بھی صواع یا صاع کہتے ہیں ہو سکتا ہے یہ بادشاہ کے پانی پینے کا کوئی مخصوص برتن ہو مگر برکت کے طور پر اسے غلہ ناپنے کے کام میں لیا جانے لگا ہوا لبتہ صواع الملک میں ملک کی جانب نسبت کرنے سے اتنی بات ضرور معلوم ہوتی ہے کہ یہ کوئی قیمتی برتن تھا خواہ سونے کا ہو یا چاندی کا یا کسی اور قیمتی چیز کا، بہرحال وہ برتن بنیامین کے سامان میں چھپا دیا گیا تھا، قیمتی برتن ہونے کے علاوہ وہ ملک مصر سے کوئی اختصاص بھی رکھتا تھا۔
کچھ دیر کے بعد منادی نے پکارا کہ اے قافلہ والو ! تم چور ہو ندا دینے والا کوئی مطبخ وغیرہ کا ذمہ دار رہا ہوگا اور اس طے شدہ حیلہ کا علم نہ ہوگا اور جب سرکاری ساز و سامان کی جانچ پڑتال کی ہوگی تو وہ مخصوص برتن نہ ملنے کی وجہ سے برادران یوسف پر شبہ ہوا ہوگا اس لیے کہ شاہی محل میں ان کے سوا اور کوئی نہ ٹھہرا تھا جس کی وجہ سے ان پر چوری کا الزام لگایا برادران یوسف کا رندوں کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگے ہم پر خواہ مخواہ کیوں الزام لگاتے ہو، آخر معلوم تو ہو کہ تمھاری کیا چیز گم ہوئی ہے ؟ کارندے کہنے لگے شاہی پیمانہ (پیالہ) گم ہو گیا ہے اور ان میں سے ایک نے کہا کہ جو شخص اس چوری کا پتہ لگا دے گا اس کو ایک اونٹ غلہ انعام دیا جائے گا اور میں اس بات کا ضامن ہوں، برادران یوسف نے کہا خدا جانتا ہے کہ ہم مصر میں فساد اور شرارت کی غرض سے نہیں آئے اور تم جانتے ہو کہ ہم اس سے پہلے بھی غلہ لینے آچکے ہیں، کارندوں نے کہا اچھا جس کے پاس سے یہ چوری نکلے اس کی سزا کیا ہونی چاہیے انھوں نے جواب دیا کہ وہ خود آپ اپنی سزا ہے یعنی وہ تمھارے حوالہ کر دیا جائے گا ہمارے یہاں چوری کی یہی سزا ہے، جب کارندوں نے برادران یوسف کا یہ جواب سنا تو تلاشی لینی شروع کی ابتدا دوسرے بھائیوں سے کی اور جب ان کے سامان میں پیالہ نہ نکلا تو آخر میں بنیامین کے سامان کی تلاشی لی تو پیالہ برآمد ہوا اور قافلہ کو واپس لوٹا کر عزیز مصر یوسف کی خدمت میں معاملہ پیش کیا، حضرت یوسف نے معاملہ کی نوعیت کو سنا تو دل میں بیحد مسرور ہوئے اور خدا تعالیٰ کی کارسازی کا شکر ادا کیا اور خاموش رہے اور یہ ظاہر نہ کیا کہ یہ پیالہ میں نے خود رکھا تھا، ادھر بنیامین خاموش رہے چونکہ یہ واقعہ ان کی مرضی کے عین موافق تھا۔ برادران یوسف نے جب دیکھا کہ مسروقہ پیالہ بنیامین کے سامان سے برآمد ہوا ہے تو کہنے لگے اگر بنیامین نے چوری کی ہے تو کیا تعجب ہے اس سے پہلے اس کا بڑا بھائی یوسف بھی چوری کرچکا ہے۔
برادران یوسف نے جب دیکھا کہ مسروقہ پیالہ بنیامین کے سامان سے برآمد ہوا ہے تو کہنے لگے اگر بنیامین نے چوری کی ہے تو کیا تعجب ہے اس سے پہلے اس کا بڑا بھائی یوسف بھی چوری کرچکا ہے۔
حضرت یوسف (علیہ السلام) کی طرف منسوب چوری کے واقعہ کی حقیقت
ابن کثیر نے بحوالہ محمد بن اسحٰق، مجاہد سے نقل کیا ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی ولادت کے تو تھوڑے ہی دنوں کے بعد بنیامین کی ولادت ہوئی تھی اور اسی ولادت کے سلسلہ میں ان کی والدہ راحیل کا انتقال ہو گیا تھا اب یہ دونوں بچے بغیر ماں کے رہ گئے جس کی وجہ سے ان کی تربیت ان کی پھوپھی کی گود میں ہوئی اللہ تعالیٰ نے بچپن ہی سے یوسف (علیہ السلام) کو کچھ ایسی شان عطا فرمائی تھی کہ جو دیکھتا ان سے بیحد محبت کرنے لگتا تھا پھوپھی کا بھی یہی حال تھا کہ کسی وقت بھی ان کو نظروں سے گا ئب کرنے پر قادر نہیں تھیں، دوسری طرف حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا بھی ایسا ہی حال تھا مگر بہت چھوٹا ہونے کی وجہ سے ضرورت اس کی تھی ان کو ابھی کسی عورت ہی کی نگرانی میں رکھا جائے، اس لیے پھوپھی کے حوالہ کر دیا جب یوسف (علیہ السلام) چلنے پھرنے کے قابل ہو گئے تو حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے چاہا کہ یوسف کو اپنے پاس رکھیں جب پھوپھی سے کہا تو انھوں نے عذر کر دیا جب زیادہ اصرار کیا تو مجبور ہو کر ان کے والد کے حوالہ کر دیا ایک تدبیر ان کو واپس لینے کی یہ کی کہ پھوپھی کے پاس ایک پٹکا تھا جو حضرت اسحٰق (علیہ السلام) کی طرف سے ان کو ملا تھا اور اس کی بڑی قدروقیمت سمجھی جاتی تھی یہ پٹکا پھوپھی نے یوسف (علیہ السلام) کے کپڑوں کے نیچے کمر پر باندھ دیا۔ یوسف (علیہ السلام) کے جانے کے بعد یہ شہرت کردی کہ میرا پٹکا چوری ہو گیا ہے جب تلاشی لی گئی تو یوسف کے پاس سے برآمد ہوا، شریعت یعقوب (علیہ السلام) کے حکم کے مطابق اب پھوپھی کو یہ حق ہو گیا کہ یوسف (علیہ السلام) کو اپنے پاس غلام بنا کر رکھ سکیں چنانچہ حضرت یوسف (علیہ السلام) پھر پھوپھی کے حوالے کر دیے گئے اور جب تک پھوپھی زندہ رہیں یوسف (علیہ السلام) ان کے پاس رہے۔ یہ واقعہ تھا جس میں یوسف (علیہ السلام) پر چوری کا الزام لگا تھا، اس واقعہ کی حقیقت اسی وقت سب لوگوں پر عیاں ہو گئی تھی کہ پھوپھی نے یوسف (علیہ السلام) کو اپنے پاس روکنے کے لیے یہ سازش رچائی تھی جس کو کسی طرح بھی چوری نہیں کہا جا سکتا مگر یوسف کے بھائیوں نے یہ جاننے کے باوجود کہ یہ چوری کا واقعہ نہیں تھا بددیانتی کی وجہ سے اس کو یوسف کے منہ ہی پر چوری کا واقعہ بنا کر پیش کیا۔ ان یسرق فقد سرق اخ لہ من قبل میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے بعض مفسرین نے نانا کے گھر سے سونے کی مورتی چرانے کی بات کہی جیسا کہ صاحب جلالین نے بھی نقل کیا ہے مگر یہ بات کسی مستند روایت سے ثابت نہیں ہے وکان ابوامہ کافراً یعبد الاصنام فامرتہ امہ بان یسرق تلک الاوثان ویکسرھا ففعل۔ (کبیر) جب یوسف نے دیکھا کہ خود ان کے منہ پر جھوٹ بول رہے ہیں تو ضبط سے کام لیا اور غصہ کو پی کر رہ گئے اور دل میں کہا کہ تمھارے لیے نہایت بری جگہ ہے کہ جھوٹا الزام لگا رہے ہو حالانکہ اللہ اس کی حقیقت کو خوب جانتا ہے۔
برادران یوسف کا آپس میں مشورہ
برادران یوسف نے جب یہ صورت دیکھی تو آپس میں مشورہ کرنے لگے کہ کس طرح بنیامین کو حاصل کیا جائے ؟ جب کوئی صورت باقی ہے کہ خوش آمدانہ عرض معروض کرکے عزیز مصر کو بنیامین کو واپسی کی ترغیب دلائیں، کہنے لگے اے سردار با اقتدار ہمارا باپ بہت بوڑھا ہے اس کو اس سے پہلے بھائی کا بھی غم ہے آپ اس پر رحم کیجئے اور آپ اس کی جگہ ہم میں سے کسی کو روک لیجئے آپ بلاشبہ پاک نفس اور بااخلاق شخص ہیں عزیز مصر (یوسف) نے کہا، خدا کی پناہ یہ کیسے ممکن ہے اگر ہم ایسا کریں گے تو ہمارا شمار ظالموں میں ہوگا۔[12]
برادران یوسف بنیامین کی رہائی سے مایوس ہو گئے تو خلوت میں بیٹھ کر مشورہ کرنے لگے ان میں سے علم و فضل میں بڑے بھائی نے جس کا نام یہودا تھا یا عمر میں بڑے بھائی تھے جس کا نام روبیل تھا کہ میں تو یہیں رہوں گا آپ سب لوگ اباجان کے پاس جائیں اور ان کو بتلائیں کہ آپ کے صاحبزادے نے چوری کی جس کی پاداش میں ان کو روک لیا گیا ہے اور ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ چشم دید حالات ہیں کہ مسروقہ مال ہمارے سامنے بنیامین کے سامان سے برآمد ہوا اور ہمیں کوئی غیب کا علم تو تھا نہیں کہ یہ چوری کرے گا ورنہ ہم ہرگز اس کو واپس لانے کی ذمہ داری نہ لیتے۔ چونکہ برادران یوسف اس سے پہلے ایک فریب یوسف کے بارے میں دے چکے تھے اور یہ جانتے تھے کہ ہمارے مذکورہ بیان سے والد صاحب کو ہرگز اطمینان نہ ہوگا، اس لیے مزید تاکید کے لیے کہا کہ آپ کو ہماری بات کا یقین نہ آئے تو آپ مصر کے لوگوں سے تحقیق کرالیں اور آپ اس قافلے سے بھی تحقیق کرسکتے ہیں جو ہمارے ساتھ ہی مصر سے کنعان آیا ہے اور ہم اس بیان میں بالکل سچے ہیں۔
غرض کہ یعقوب (علیہ السلام) نے برادران یوسف کے بیان کی تصدیق نہ کی چونکہ یوسف کے معاملہ میں ان بھائیوں کا جھوٹ ثابت ہو چکا تھا اس لیے اس مرتبہ ان کی سچی بات کا بھی یقین نہیں کیا اور کہہ دیا تم نے یہ بات اپنی طرف سے گھڑی ہے میرے لیے صبر ہی بہتر ہے، قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو مجھے ملا دے گا۔ اس دوسرے صدمہ کے بعد صاحبزادوں سے اس معاملہ میں گفتگو موقوف کردی اور اپنے رب کے سامنے فریاد شروع کردی اور اسی غم میں روتے روتے ان کی بینائی جاتی رہی مقاتل نے کہا ہے کہ یعقوب (علیہ السلام) کی یہ حالت چھ سال رہی، حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اس کے بعد زیادہ تر خاموش رہنا شروع کر دیا دل ہی دل میں گھٹتے رہتے تھے کسی سے کچھ نہ کہتے تھے۔
برادران یوسف تیسری بار مصر آنا
جب برادران یوسف والد کے حکم کے مطابق مصر پہنچے اور عزیزمصر سے ملاقات ہوئی تو خوش آمدانہ گفتگو شروع کی، اپنی محتاجی اور بیکسی کا اظہار کیا کہ اے عزیز ہم کو اور ہمارے گھروالوں کو قحط کی وجہ سے سخت تکلیف پہنچ رہی ہے، یہاں تک کہ اب ہمارے پاس غلہ خریدنے کے لیے بھی مناسب قیمت موجود نہیں ہم مجبور ہو کر کچھ نکمی نخالص چیزیں غلہ خریدنے کے لیے لے کر آئے ہیں آپ اپنے کریمانہ اخلاق سے انہی نکمی چیزوں کو قبول فرمالیں اور غلہ پورا عنایت فرمادیں ہماری کھوٹی پونجی کی وجہ سے غلہ میں کمی نہ کریں، ظاہر ہے کہ ہمارا ستحقاق نہیں ہے مگر آپ خیرات سمجھ کر دیدیجئے اللہ تعالیٰ خیرات دینے والوں کو جزاء خیر عطا کرتا ہے۔ یوسف (علیہ السلام) نے جب بھائیوں کے یہ مسکنت آمیز الفاظ سنے اور شکستہ حالت دیکھی تو طبعی طور پر حقیقت حال ظاہر کردینے پر مجبور ہوئے اور یوسف (علیہ السلام) پر منجانب اللہ اظہار حال کی جو پابندی لگی ہوئی تھی اب اس کے خاتمہ کا وقت آگیا تھا۔
یعقوب (علیہ السلام) کا عزیز مصر کے نام خط
تفسیر مظہری اور قرطبی میں بروایت ابن عباس (رض) نقل کیا ہے کہ اس موقع پر یعقوب (علیہ السلام) نے عزیز مصر کے نام ایک خط لکھ کر دیا تھا جس کا مضمون یہ تھا۔ منجانب یعقوب صفی اللہ بن اسحٰق ذبیح اللہ بن ابراہیم خلیل اللہ، بخدمت عزیز مصر امابعد ! ہمارا پورا خاندان بلاؤں اور آزمائشوں میں معروف ہے میرے دارا ابراہیم خلیل اللہ کا آتش نمرود میں امتحان لیا گیا، پھر میرے والد اسحٰق کا شدید امتحان لیا گیا پھر میرے لڑکے کے ذریعہ میرا امتحان لیا گیا، جو مجھے سب سے زیادہ محبوب تھا، یہاں تک کہ اس کی مفارقت میں میری بینائی جاتی رہی اس کے بعد اس کا ایک جھوٹا بھائی مجھ غم زدہ کی تسلی کا سامان تھا جس کو آپ نے چوری کے الزام میں گرفتار کر لیا اور میں بتلاتا ہوں کہ ہم اولاد انبیا ہیں نہ ہم نے کبھی چوری کی اور نہ ہماری اولاد میں کوئی چور پیدا ہوا، والسلام “۔
جب یوسف نے خط پڑھا تو کانپ گئے اور بے اختیار رونے لگے اور اپنے راز کو ظاہر کر دیا اور تعارف کی تمہید کے طور پر بھائیوں سے یہ سوال کیا کہ تم کو کچھ یہ بھی یاد ہے کہ تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا برتاؤ کیا تھا جبکہ تمھاری جہالت کا زمانہ تھا اور یوسف کی اس شان سے بھی ناواقف تھے جو اس کو حاصل ہونے والی تھی۔ برادران یوسف (علیہ السلام) نے جب یہ سوال سنا تو چکرا گئے کہ عزیز مصر کو یوسف کے قصہ سے کیا واسطہ پھر ادھر بھی دھیان گیا کہ یوسف نے جو بچپن میں خواب دیکھا تھا اس کی تعبیر یہی تھی کہ اس کو کوئی بلند مرتبہ حاصل ہوگا کہ ہم سب کو اس کے سامنے جھکنا پڑے گا، کہیں یہ عزیز مصر خود یوسف ہی نہ ہو پھر جب اس پر غور و تامل کیا تو کچھ علامات سے پہچان لیا اور مزید تحقیق کے لیے ان سے کہا۔
یوسف کیا تو سچ مچ یوسف ہے، تو یوسف (علیہ السلام) نے کہا ہاں میں ہی یوسف یوں اور یہ بنیامین میرا حقیقی بھائی ہے سوال کے جواب میں اقرار و اعتراف کے ساتھ یوسف (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے احسان کا ذکر اور صبر وتقویٰ کے بتائج حسنہ بھی بیان کرکے بتلا دیا کہ تم نے مجھے ہلاک کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا لیکن یہ اللہ کا فضل و احسان ہے کہ اس نے نہ صرف یہ کہ مجھے کنویں سے نجات عطا فرمائی بلکہ مصر کی فرماں روائی بھی عطا فرما دی اور یہ نتیجہ ہے اس صبر وتقویٰ کا جس کی توفیق اللہ نے مجھے عطا فرمائی۔
بھائیوں کا اعتراف جرم
بھائیوں نے جب یوسف (علیہ السلام) کی یہ شان دیکھی تو انھوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا، حضرت یوسف (علیہ السلام) نے بھی پیغمبرانہ عفو و درگزر سے کام لیتے ہوئے فرمایا کہ جو ہوا سو ہوا آج تمھیں کوئی سرزنش اور ملامت نہیں کی جائے گی، فتح مکہ کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی مکہ کے ان کفار اور سردار ان قریش کو جو آپ کے خون کے پیاسے تھے اور آپ کو طرح طرح ایذائیں پہنچائی تھیں قتل کی سازشیں کیں معاشرتی اور معاشی بائیکاٹ کیا حتی کہ وطن عزیز سے نکلنے پر مجبور کر دیا اور مدینہ میں بھی چین سے نہ رہنے دیا یہی " لاتشریب علیکم الیوم “ کے الفاظ فرما کر معاف فرما دیا تھا۔
تم جاؤ اور والدین اور اپنے سب متعلقین کو یہاں کے آؤ چونکہ والد بزرگوار کی نسبت معلوم ہو چکا تھا کہ ان کی بینائی جاتی رہی ہے اس لیے اپنا کرتا دے کر فرمایا یہ ان کی آنکھوں کو لگا دینا بینائی بحال ہوجائے گی۔ ادھر یہ قمیص لے کر قافلہ مصر سے روانہ ہوا ادھر یعقوب (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی خوشبو آنے لگی یہ گویا اس بات کا اعلان تھا کہ اللہ کے پیغمبر کو بھی جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے اطلاع نہ پہنچے پیغمبر بے خبر ہوتا ہے، خدا کی قدرت، یوسف قریب ہی چاہ کنعان میں موجود ہیں کبھی نہ کہا کہ یوسف کی خوشبو آتی ہے کیونکہ خدا کو امتحان پورا کرنا تھا، مگر جب خدا کو منظور ہوا تو ادھر صدہا میل دور مصر سے قافلہ یوسف (علیہ السلام) کا کرتا لے کر چلا ادھر پیراہن یوسفی کی خوشبو یعقوب (علیہ السلام) کے مشام جان کو معطر کرنے لگی، کرتا کی وجہ سے بینائی کا عود کر آنا ظاہر ہے کہ کوئی مادی سبب نہیں ہو سکتا بلکہ یہ ایک معجزہ تھا، یوسف (علیہ السلام) کو باذن خداوندی معلوم ہو گیا تھا کہ جب ان کا کرتا والد کے چہرے پر ڈالا جائے گا تو اللہ تعالیٰ ان کی بینائی بحال کر دیں گے۔
جنتی کرتا کی خصوصیت
ضحاکؒ اور مجاہدؒ وغیرہ ائمہ تفسیر نے فرمایا ہے کہ یہ اس کرتے کی خصوصیت تھی اس لیے کہ یہ کرتا عام کپڑوں کی طرف نہ تھا بلکہ حضرت ابراہیم کے لیے جنت سے اس وقت لایا گیا تھا جب نمرود نے آپ کو برہنہ کرکے آگ میں ڈالا تھا، پھر یہ جنتی کرتا ہمیشہ ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس رہا حضرت ابراہیم کے بعد حضرت اسحٰق (علیہ السلام) کے پاس رہا ان کی وفات کے بعد حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے پاس رہا آپ نے اس کرتے کو ایک متبرک شے سمجھ کر ایک نلکی میں بند کرکے یوسف (علیہ السلام) کے گلے میں بطور تعویذ ڈال دیا تھا تاکہ نظر بد سے محفوظ رہیں، برادران یوسف نے جب دھوکا دینے کے لیے ان کا کرتا اتار لیا اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کو برہنہ کرکے کنوئیں میں ڈالنے لگے تو جبرائیل امین تشریف لائے اور گلے میں پڑی ہوئی نلکی سے کرتا نکال کر یوسف (علیہ السلام) کو پہنا دیا اور یہ کرتا حضرت یوسف (علیہ السلام) کے پاس محفوظ تھا، اس وقت بھی جبرائیل ہی نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو یہ مشورہ دیا تھا کہ یہ جنت کا لباس ہے اس کی خاصیت یہ ہے کہ گر نابینا کی آنکھوں سے لگا دیا جائے تو بینائی عود کر آتی ہے۔ [13]
برادران یوسف کا کاروان کنعان کے لیے روانہ
ادھر برادران یوسف کا کاروان پیراہن یوسفی ساتھ لے کر کنعان کے لیے روانہ ہوا ادھر خدا کے برگزیدہ پیغمبر یعقوب (علیہ السلام) کو شمیم یوسف نے مہکا دیا فرمانے لگے اے خاندان یعقوب اگر تم یہ نہ کہو کہ بڑھاپے میں اس کی عقل ماری گئی ہے تو میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ مجھے یوسف کی مہک آرہی ہے، سب کہنے لگے واللہ تم تو اپنے اسی پرانے خبط میں پڑے ہو، یعنی اس قدر عرصہ گذر جانے کے بعد بھی جبکہ یوسف کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہا تمھیں یوسف ہی کی رٹ لگی ہوئی ہے۔
غرض کہ یہ کنعانی قافلہ بخیر و عافیت کنعان پہنچ گیا اور برادران یوسف نے یوسف (علیہ السلام) کے حکم کے مطابق ان کا پیراہن یعقوب (علیہ السلام) کی آنکھوں پر ڈال دیا یعقوب (علیہ السلام) کی آنکھیں فورا روشن ہوگئیں، فرمانے لگے دیکھو میں نہ کہتا تھا کہ میں اللہ کی جانب سے وہ بات جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ برادران یوسف کے لیے یہ وقت بڑا کٹھن تھا، شرم و ندامت میں غرق سر جھکائے ہوئے بولے اے ابا جان آپ ہمارے لیے جناب باری میں گناہوں کی مغفرت کی دعا کر دیجئے کیونکہ اب یہ تو ظاہر ہو ہی چکا ہے کہ بلاشبہ ہم سخت خطاکار اور قصور وار ہیں، یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا سوف استغفر لکم ربی انہ ھو الغفور الرحیم میں عنقریب تمھارے لیے دعا کروں گا بلاشبہ وہ غفور الرحیم ہے۔
خاندان یعقوب (علیہ السلام) مصر میں
غرض یعقوب (علیہ السلام) اپنے پورے خاندان کو لے کر مصر پہنچے، جس وقت یعقوب (علیہ السلام) کا خاندان مصر پہنچا تو اس کی تعداد بائبل کے بیان کے مطابق ٦٧ یا ٧٠ تھی اس وقت حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی عمر 130 سال تھی اور اس کے بعد وہ مصر میں 17 سال زندہ رہے۔ جب یوسف (علیہ السلام) کو اطلاع ہوئی کہ ان کے والد مع خاندان شہر کے قریب پہنچ گئے ہیں تو وہ فورا استقبال کے لیے شہر سے باہر نکلے، جب دونوں نے ایک دوسرے کو مدت دراز کے بعد دیکھا تو فرط محبت میں یعقوب (علیہ السلام) نے یوسف (علیہ السلام) کو سینہ سے لگالیا اور جب یہ پر مسرت اور رقت آمیز ملاقات ہو چکی تو حضرت یوسف نے والد سے عرض کیا کہ اب تو آپ عزت و احترام اور امن و حفاظت کے ساتھ شہر میں تشریف لے چلیں۔ اس وقت مصر کا دار السلطنت رعمیس تھا، حضرت یوسف (علیہ السلام) اپنے والد ماجد اور تمام دیگر افراد خاندان کو بڑے کرّوفر اور تزک و احتشام کے ساتھ شاہی سواریوں میں بیٹھا کر شہر میں لائے اور شاہی محل میں قیام کرایا۔
جب ان تمام باتوں سے فراغت پائی تو اب ارادہ کیا کہ دربار منعقد کریں تاکہ اہل مصر کا بھی حضرت یعقوب اور ان کے خاندان سے تعارف ہوجائے اور تمام درباری ان کے عزت و احترام سے واقف ہوجائیں، دربار منعقد ہوا تمام درباری اپنی مقررہ نشستوں پر بیٹھ گئے، یوسف (علیہ السلام) کے حکم سے ان کے والدین کو تخت شاہی پر جگہ دی گئی اور باقی تمام خاندان نے حسب مراتب نیچے جگہ پائی، جب یہ سب انتظامات مکمل ہو گئے تب حضرت یوسف (علیہ السلام) شاہی محل سے باہر تشریف لائے اور شاہی تخت پر جلوہ افروز ہوئے، اسی وقت تمام درباری حکومت کے دستور کے مطابق تخت شاہی کے سامنے تعظیم کے لیے سجدہ میں گرپڑے موجودہ صورت کو دیکھ کر خاندان یوسف نے بھی یہی عمل کیا، یہ دیکھ کر یوسف (علیہ السلام) کو فورا اپنے بچپن کا خواب یاد آگیا اپنے والد سے کہنے لگے ابا یہ میرے اس خواب کی تعبیر ہے جو میں نے پہلے بچپن میں دیکھا تھا۔تورات میں ہے کہ اس واقعہ کے بعد یوسف (علیہ السلام) کا تمام خاندان مصر میں آباد ہو گیا کیونکہ اس وقت کے فرعون ریان نے اصرار کے ساتھ یہ کہا تھا کہ تم اپنے خاندان کو مصر ہی میں آباد کرو، میں ان کو بہت عمدہ زمین دوں گا اور ہر طرح ان کی عزت کروں گا۔
حضرت یوسف (علیہ السلام) کی وفات
حضرت یوسف (علیہ السلام) کا انتقال ایک سو بیس سال کی عمر میں ہوا اور دریائے نیل کے کنارے دفن کیے گئے، ابن اسحٰق نے عروہ بن زبیر کی روایت سے بیان کیا ہے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر مصر سے نکل جائیں تو بذریعہ وحی یہ بھی کہا گیا کہ ان ہڈیوں کو اپنے ساتھ لے کر ملک شام چلے جائیں اور ان کے آباواجداد کے پاس دفن کریں اس حکم کے مطابق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے تفتیش کرکے ان کی قبر دریافت کی جو ایک سنگ مر مر کے تابوت میں تھی اس کو اپنے ساتھ ارض فلسطین (کنعان) میں لے گئے اور حضرت اسحٰقؑ و یعقوبؑ کے برابر دفن کر دیا۔سکم میں اُس خطۂ زمین میں دفن کیا گیا جو آپ کے باپ یعقوب نے خریدا تھا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بعد قوم عمالیق کے فراعنہ مصر پر مسلط ہو گئے اور بنو اسرائیل ان کی حکومت میں رہتے ہوئے دین یوسف (علیہ السلام) پر قائم رہے مگر ان کو غیر ملکی سمجھ کر طرح طرح کی ایذائیں دی جانے لگیں یہاں تک کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس عذاب سے نجات دی۔ [14]
حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی وفات
تفسیر قرطبی میں اہل تاریخ کے حوالہ سے مذکور ہے کہ مصر میں ٢٤ سال رہنے کے بعد یعقوب (علیہ السلام) کی وفات ١٤٧ سال کی عمر میں ہوئی، حضرت سعید بن جبیرؒ نے فرمایا کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو سال کی لکڑی کے تابوت میں رکھ کر بیت المقدس کی طرف ان کی وصیت کے مطابق منتقل کیا گیا۔ [15]
مزید دیکھیے
حوالہ جات
- ↑ (القرآن سورہ یوسف آیت 3-5 تفسیر جلالین دارالکتب العلمیہ بیروت)
- ↑ (القرآن سورہ یوسف آیت 7-20 تفسیر جلالین دارالکتب العلمیہ بیروت)
- ↑ ( Talmod تلمود)
- ↑ (القرآن سورہ یوسف آیت 20-30 تفسیر جلالین دارالکتب العلمیہ بیروت)
- ↑ (القرآن سورہ یوسف آیت 35-31 تفسیر جلالین دارالکتب العلمیہ بیروت)
- ↑ (حاشیہ جلالین امام سیوطی ؒ)
- ↑ (القرآن سورہ یوسف آیت 31-42 تفسیر جلالین دارالکتب العلمیہ بیروت)
- ↑ (القرآن سورہ یوسف آیت 53-43 تفسیر جلالین دارالکتب العلمیہ بیروت)
- ↑ تورات باب پیدائش عہد نامہ قدیم
- ↑ (القرآن سورہ یوسف آیت 54-58 تفسیر جلالین دارالکتب العلمیہ بیروت)
- ↑ (القرآن سورہ یوسف آیت 68-59 تفسیر جلالین دارالکتب العلمیہ بیروت)
- ↑ (القرآن سورہ یوسف آیت 80-69 تفسیر جلالین دارالکتب العلمیہ بیروت)
- ↑ (القرآن سورہ یوسف آیت 80-93 تفسیر جلالین دارالکتب العلمیہ بیروت)
- ↑ (تفسیر مظھری سورہ یوسف)
- ↑ (القرآن سورہ یوسف آیت 104-94 تفسیر جلالین دارالکتب العلمیہ بیروت)