ہشام بن عبدالملک
| |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
(عربی میں: هشام بن عبد الملك) | |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | سنہ 691ء دمشق |
||||||
وفات | 6 فروری 743ء (51–52 سال) رصافہ |
||||||
وجہ وفات | خناق | ||||||
طرز وفات | طبعی موت | ||||||
شہریت | سلطنت امویہ | ||||||
اولاد | سلیمان بن ہشام | ||||||
والد | عبدالملک بن مروان | ||||||
بہن/بھائی | |||||||
خاندان | خلافت امویہ | ||||||
مناصب | |||||||
خلیفہ سلطنت امویہ (10 ) | |||||||
برسر عہدہ 26 جنوری 724 – 6 فروری 743 |
|||||||
| |||||||
دیگر معلومات | |||||||
پیشہ | سیاست دان ، گورنر ، خلیفہ | ||||||
پیشہ ورانہ زبان | عربی | ||||||
درستی - ترمیم |
بنو امیہ |
خلفائے بنو امیہ |
---|
معاویہ بن ابو سفیان، 661-680 |
یزید بن معاویہ، 680-683 |
معاویہ بن یزید، 683-684 |
مروان بن حکم، 684-685 |
عبدالملک بن مروان، 685-705 |
ولید بن عبدالملک، 705-715 |
سلیمان بن عبدالملک، 715-717 |
عمر بن عبدالعزیز، 717-720 |
یزید بن عبدالملک، 720-724 |
ہشام بن عبدالملک، 724-743 |
ولید بن یزید، 743-744 |
یزید بن ولید، 744 |
ابراہیم بن ولید، 744 |
مروان بن محمد، 744-750 |
یزید ثانی کی وفات کے بعد 724ء میں ہشام تخت خلافت پر متمکن ہوا۔ اس وقت اس کی عمر 34 برس تھی۔ تخت نشینی کے وقت وہ رصافہ میں مقیم تھا۔ ہشام، عبد الملک کے لائق ترین فرزندوں میں سے تھا۔ اس کے پیشرو یزید بن عبد الملک کا دور بنو امیہ کا بدترین زمانہ قرار دیا جاتا ہے۔ اس کی نااہلی، عیش پرستی، قبائلی عصبیت اور اندرون ملک بے چینی نے کئی نئے پیچیدہ مسائل پیدا کر دیے تھے۔ ہشام نے جونہی تخت خلافت پر قدم رکھا تو اپنے آپ کو قبائلی تعصبات نفرت اور گوناگوں مشکلات میں گھرا پایا۔ اپنے عہد حکومت کے پونے بیس برس وہ مسلسل اس کوشش میں مصروف رہا کہ بن امیہ کی روبہ زوال حکومت کو تباہی سے بچا سکے۔ اس کی یہ طویل جدوجہد ہمت و شجاعت اور حوصلہ و تدبر کی ایک شاندار داستان ہے۔ اگرچہ وہ بنو امیہ کو زوال سے تو نہ بچا سکا لیکن اس نے ان کے گرتے ہوئے قصر اقتدار کو وقتی طور پر سہارا دیا اور مختلف النوع کامرانیاں حاصل کرنے کے بعد اس کے وقار کو بحال کیا۔
اہم واقعات و فتوحات
[ترمیم]تخت نشین ہونے کے بعد ہشام نے وسط ایشیا کے سرکش ترکوں کو مغلوب کرنے کے لیے کئی ایک مہمات روانہ کیں۔ کیونکہ ترک سردار خاقان کی مدد سے خود مختاری کے لیے کوشاں تھے۔
ہشام کی تخت نشینی کے وقت عمرو بن ہبیرہ عراق کا گورنر تھا۔ ہشام نے اسے ہٹا کر خالد بن عبداللہ القسری کو گورنر مقرر کر دیا۔ القسری نے اسعد بن سعید کی جگہ خراسان کی ولایت پر اپنے بھائی اسد القسری کو مامور کیا۔ اس نے 726ء میں دوبارہ غور پر حملہ کرکے غوریوں کو شکست دی۔ لیکن چونکہ اسد القسری قبائلی عصبیت کا شکار تھا اس لیے ہشام نے امیر اشرس بن عبداللہ سلمی کو خراسان کا حاکم مقرر کیا۔ اشرس نے جنگ سے ہاتھ روک کر تبلیغ اسلام کے ذریعہ سے اس علاقہ میں امن و امان قائم کیا لیکن نو مسلموں کو جزیہ معاف نہ کیا۔ سات ہزار نو مسلموں نے اس غیر منصفانہ پالیسی کے خلاف غم و غصہ کا اظہار کرکے بغاوت کر دی۔ یہ بغاوت صغد اور بخارا تک پھیل گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس آگ نے سارے ماورالنہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ترکوں نے بھی ان کا ساتھ دیا۔ اس کے علاوہ حقیقت پسند عربوں نے بھی نو مسلموں کے اس مطالبہ کی تائید کی ۔
اشرس کو ہٹا کر جیند بن عبدالرحمن کو خراسان کا گورنر بنایا گیا۔ اس نے ترکوں کو ابتدائی شکستیں دینے کے بعد خارستان پر فوج کشی کی دوسری طرف ترکوں نے صفد، فرغانہ اور چاچ کی سپاہ کے ساتھ اشتراک کرتے ہوئے سمرقند پر حملہ کر دیا۔ جنید کے پاس چند ہزار سپاہی تھے جنہیں لے کر وہ فوراً آگے بڑھا اور سمرقند کے قریب دونوں افواج کے درمیان جنگ ہوئی۔ جنید نے حوصلہ قائم رکھا اور دو دن تک بڑی بہادری سے ترکوں کی مزاحمت کی مگر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اس دوران حاکم سمرقند سورہ بارہ ہزار سپاہ لے کر جنید کی امداد کے لیے آگے بڑھا لیکن خاقان اور ان کی فوج نے زبردست ہلہ بول دیا۔ سورہ کی فوج میں بمشکل دو ہزار آدمی بچ سکے بقیہ مارے گئے حالات سخت مایوس کن تھے۔ جنید نے آخری بار مقابلہ کی ٹھانی اور اعلان کر دیا کہ ’’ جو غلام اس جنگ میں کا رہائے نمایاں دکھائے گا وہ آزاد ہے۔‘‘ اس پر مسلمان اس جذبہ سے لڑے کہ ترکوں کو میدان چھوڑتے ہی بنی اور جنید فتح مندانہ سمرقند میں داخل ہوا۔ فتح کے بعد جنید نے خلیفہ کو تمام صورت حالات سے آگاہ کیا۔ ہشام نے دو ہزار فوج بطور کمک روانہ کی۔ اس دوران خاقان نے بخارا کی طرف پیش قدمی کی۔ جنید بھی فوراً وہاں پہنچ گیا چنانچہ ترک وہیں سے واپس چلے گئے۔
حارث بن شریح کی بغاوت
[ترمیم]خراسان کے والی عاصم بن عبداللہ بلالی کے زمانہ میں امیر حارث بن شریح نے اسلامی حکومت کے قیام کانعرہ لگا کر سات ہزار آدمیوں کو اپنا ہمنوا بنا لیا۔ ان میں عرب نو مسلم اور ترک سبھی شامل تھے امیر حارث جب بلخ، جوزجان، وغیرہ فتح کرنے کے بعد خراسان کے دار الخلافہ مرو کی طرف بڑھا تو عاصم کے ہاتھوں شکست کھائی لیکن اس کی قوت زائل نہ کی جاسکی۔ چنانچہ عاصم کی جگہ اسد القسری کو خراسان کا گورنر مقرر کیا جس نے مسلسل معرکہ آرائیوں کے بعد حارث کو خراسان کے علاقہ سے نکال دیا اور وہ خاقان کے ہاں پناہ لینے پر مجبور ہوا۔ ان کامیابیوں کے بعد اسد القسری پھر ترکستان کی طرف متوجہ ہوا۔ ترکوں کے کئی ایک قلعوں پر قبضہ کے بعد کثیر مال غنیمت اور قیدی ہاتھ لگے۔
خاقان کا قتل
[ترمیم]موسم سرما گزرنے کے بعد خاقان نے پھر بخارا کا رخ کیا لیکن شکست کھائی۔ واپسی پر ایک ترک سردار کورصول کے ساتھ چوگان کھیلتے ہوئے خاقان کا ہاتھ ٹوٹ گیا۔ خاقان نے قسم کھائی کہ وہ کورصول سے ضرور بدلہ لے گا لیکن کورصول نے ایک رات شبخون مار کر خاقان ہی کو قتل کر دیا۔ خاقان کے قتل کے بعد ترکوں میں خانہ جنگی شروع ہو گئی اور ان کی طاقت ٹوٹ گئی ۔
نصر بن سیار کا تقرر
[ترمیم]اسدالقسری کی وفات کے بعد نصر بن سیار کو خراسان کا حاکم مقرر کیا گیا۔ نصر بڑا بہادر، منظم اور دوراندیش حکمران تھا اس نے نظم و نسق حکومت کی اصلاح کو اولین اہمیت دی اور جنگ و غارت گری کے حقیقی اسباب کو ختم کرنے لیے اقدامات اٹھائے۔ نومسلموں سے جزیہ کی وصولی بند کر دی گئی۔ خراج کی وصولی کے نظام کو بہتر بنایا اور زمین کا مالیہ تمام عرب اور غیر عرب سے وصول کرنا شروع کر دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ماورالنہر پر مختلف سمتوں سے لشکر کشی کی اور چاچ اور فرغانہ میں امن و امان قائم کیا۔ صغد اور ترک مسلسل لڑائیوں سے تنگ آ چکے تھے لٰہذا انھوں نے نصر سے ان مطالبات پر صلح کی تجویز کی کہ ان کے مذہبی امور میں مداخلت نہ کی جائے گی۔ جو نو مسلم اپنے مذہب میں واپس آنا چاہے اسے کوئی سزا نہ دی جائے گی اور مسلمان قیدیوں کو بغیر قاضی کے فیصلے کے واپس نہیں لیا جائے گا تو ہم ہتھیار پھینک کر صلح کے لیے تیار ہیں۔ نصر ایک دور اندیش حکمران تھا اس نے ان تمام مطالبات کو منظور کر لیا اور اس طرح ترکستان کا یہ علاقہ جو مسلسل بے امنی کا اڈا بن چکا تھا امن و سکون سے دوچار ہوا۔
آرمینیا اور آذربائیجان
[ترمیم]علاقہ ترکستان کے علاوہ آرمینیا اور آذربائیجان میں بھی ترک اور من اور خزو کے قبائل نے متحد ہو کر مسلمانوں کے لیے ایک نازک صورت حال پیدا کر دی تھی۔ یہاں کے گورنر جراح بن عبداللہ مقامی حالت پر قابو نہ پا سکے اس لیے ہشام نے انھیں معزول کرکے مسلمہ بن عبدالملک کو 726ء میں ان کی جگہ مقرر کیا۔ مسلمہ نے ترکوں کے کئی شہر فتح کر لیے۔ خاقان کا بیٹا مسلمہ کے ہاتھوں شکست کھا کر قتل ہوا۔ جراح کی موت سے ترکوں کے حوصلے بڑھ گئے اور وہ موصل تک بڑھ آئے۔ چنانچہ ہشام نے ان کے تدارک کے لییے سعید حرشی کو آذربائیجان روانہ کیا۔ اس نے اس کے علاقوں پر پے در پے حملے کرکے بہت سے شہر فتح کر لیے۔ سعید کی پے در پے فتوحات کا سن کر ہشام نے اس کی کارگزاری پر اظہار خوشنودی اور اطمینان کیا۔
113ھ میں ہشام نے سعید کو واپس بلا کر اپنے بھائی مسلمہ بن عبدالملک کو دوبارہ آذربائیجان روانہ کیا۔ مسلمہ نے خزو کے سارے علاقے میں افواج پھیلا دیں۔ خاقان کا لڑکا ایک لڑائی میں مارا گیا اب خاقان نے جوش انتقام میں آس پاس کی سب قوموں پر مشتمل ایک لشکر جرار کو منظم کیا اور مسلمانوں پر امڈ آیا۔ مسلمہ نے مقابلہ کی سکت نہ پا کر پسپائی اختیار کی اور باب الابواب میں قیام پزیر ہو گیا۔ ہشام نے مسلمہ کی جگہ مروان ثانی کو آرمینیا کا حاکم مقرر کیا۔ مروان نے ایک لاکھ بیس ہزار افراد پر مشتمل فوج کیل کانٹے سے لیس تیار کی۔ اس نے ترکوں کے سارے علاقے کو تاخت و تاراج کیا ان کے متعدد شہروں اور قلعوں پر قبضہ کرکے ان کی طاقت کو کچل کر رکھ دیا اور تمام علاقے جو مسلمانوں سے چھن چکے تھے دوبارہ سلطنت اسلامی کا جزو بنے ۔
ایشائے کوچک میں رومیوں کے ساتھ مسلمانوں کی اکثر جنگیں ہوتی رہتی تھیں۔ یہاں بالعموم شاہی افراد ہی گورنر بنا کر بھیجے جاتے تھے۔ چنانچہ ہشام نے اپنے دو بیٹوں معاویہ اور سلیمان کے علاوہ مروان ثانی اور مسلمہ بن عبدالملک کو مہمات کا انچارج بنا کر رومیوں کے خلاف صف آراء ہونے کے لیے روانہ کیا۔ انھوں نے رومیوں کی ناکہ بندی کرکے مطمورہ تونبہ اور بہت سے سرحدی علاقوں پر قبضہ کر لیا۔
سسلی کا محاصرہ کافی عرصہ جاری رہا جب اہل صقیلیہ نے محسوس کیا کہ مسلمانوں کو شکست دینا آسان نہیں تو انھوں نے اطاعت قبول کر لی اور اس طرح سسلی مملکت اسلامیہ کا جزو بنا۔
محمد بن قاسم کی واپسی کے بعد سندھ کا اکثر و بیشتر علاقہ مقامی حکمرانوں کے قبضہ اقتدار میں جاکر نیم خود مختارانہ حیثیت اختیار کر چکاتھا۔ کافی عرصہ سے مسلمانوں نے سندھ کے معاملات کی طرف سے خاموشی اختیار کر رکھی تھی لیکن ہشام نے اپنے عہد حکومت میں سندھ کی ازسرنو تسخیر کی طرف توجہ دی۔
107ھ میں ہشام نے سندھ کی حکومت جنید بن عبدالرحمٰن کے سپرد کی۔ نئے والی نے دریائے سندھ کے کنارے کنارے پیش قدمی کا آغاز کیا۔ اس علاقہ کا حکمران واسر کا بیٹا راجہ جے سنگھ تھا۔ وہ اس سے بیشتر مسلمان ہو چکا تھا لیکن جنید کی سندھ میں آمد کے موقع پر مرتد ہو گیا اور بحری کشتیاں جمع کرکے دریائے سندھ کے مشرقی کنارے پر اسلامی افواج کے مقابلہ میں صف آراء ہوا مگر گرفتار ہوا اور قتل کر دیا گیا۔ جنید نے اپنی پیش قدمی کو جاری رکھا اور کیرج پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد مارواڑ، مانڈل، بھروچ، اجین اور مالوہ کے علاقے فتح کیے۔ اس طرح راجپوتانہ کا بہت سا حصہ مسلمانوں کے زیر نگیں ہوا۔ جنید نے اپنی سرکردگی میں گجرات اور بھین رال کے علاقوں کو فتح کرکے اسلامی حکومت کا جزو بنایا۔
111ھ ہشام نے جنید کو والی خراسان مقرر کر دیا اور سندھ کی ولایت پر تمیم کو مامور کیا۔ جنید کی واپسی پر ملک کے اندر عام بے چینی پھیل گئی۔ تمیم حالات پر قابو پانے میں ناکام رہا۔ چنانچہ حکم بن خواز کو سندھ کا والی مقرر کیا گیا۔ حکم نے سب سے پہلے دریائے سندھ کے مشرقی کنارے محفوظ کا شہر آباد کیا اور محمد بن قاسم کے بیٹے عمرو کی مدد اور تعاون سے ان تمام علاقوں کو جو قبضہ سے نکل چکے تھے دوبارہ فتح کر لیا۔ اس اہم کارنامے کی یاد میں منصورہ آباد کیا جو بعد میں سندھ کا دار الخلافہ بنا۔ ایک معرکہ میں حکم بن عوانہ لڑتے ہوئے وفات پا گئے تو ہشام نے عمرو بن قاسم کو سندھ کی حکومت سپرد کر دی۔ عمر بن محمد بن قاسم نے سندھ کی مکمل فتح کے بعد نظم و نسق کی بہتری کی طرف توجہ دی اور ملکی خوش حالی میں اضافہ کیا۔
شمالی افریقہ اور اندلس
[ترمیم]شروع شروع میں چونکہ شمالی افریقہ میں امن و امان کا دور دورہ رہا اس لیے وہاں کے والی امیر عبداللہ بن حجاب نے اطراف و اکناف میں مہمات روانہ کرکے نئے علاقے فتح کیے۔ حبیب بن ابی عبیدہ فہری نے مغرب میں سوس اقصٰی اور سوڈان کے علاقے فتح کیے۔ بحیرہ روم کے علاقہ میں حبیب بن ابی عبداللہ نے حزیرہ سروانیہ کی تسخیر کی۔ صقیلیہ کے پایہ تخت سرقوسہ کو بھی سر کر لیا گیا۔ اس دوران شمالی افریقہ میں بربریوں نے بغاوت کر دی۔ بربریوں کی بغاوت کی کئی وجوہات تھیں۔ اولاً بنو امیہ عربی ہونے کی بنا پر بربریوں کو وحشی اور نیم متمدن قوم سمجھتے ہوئے ان سے اچھا سلوک نہ کرتے تھے۔ خوارج ویسے ہی بنو امیہ کے جانی دشمن تھے۔ اس کے علاوہ حاکم طنجہ عمر بن عبداللہ نے غیر مسلموں کی طرح ان سے بھی جزیہ وغیرہ وصول کرنے کا حکم دیا۔ اس وقت اموی افواج سسلی کی مہم میں مشغول تھیں اور طنجہ خالی تھی۔ لٰہذا بربریوں نے ایک خارجی سردار میسرہ کو اپنا رہنما چن کر طنجہ پر حملہ کر دیا۔ جتنے عرب وہاں موجود تھے سب کا خوب قتل عام کیا۔ امیر طنجہ میں مارا گیا افریقا کے دیگر علاقوں کے بربر بھی مشتعل ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے اور بڑے بڑے شہروں پر قبضہ کر لیا۔ اب باغیوں کا مقصد طنجہ پر قبضہ کرنا تھا۔ طنجہ کی دوسری جنگ کو جنگ اشراف کا نام دیا جاتا ہے۔ کیونکہ اس لڑآئی میں عربوں کے بڑے بڑے شرفاء اور نامور لوگ مارے گئے۔ بربری بڑی سرعت سے کامیابیاں حاصل کر رہے تھے۔ اس کی صدائے بازگشت اندلس میں بھی سنی گئی اور وہاں پر بربریوں نے علم بغاوت بلند کیا۔ چنانچہ ابن حجاب کو معزول کرکے کلثوم بن عیاض کو افریقا کا والی بنا کر تیس ہزار فوج کے ساتھ روانہ کیا گیا۔ قیروان پہنچتے پہنچتے اس کی فوج کی تعدا ستر ہزار تک پہنچ گئی۔ لیکن کلثوب بن عیاض نے بھی بربریوں کے ہاتھوں شکست فاش کھائی اور دیگر بڑے بڑے فوجی جرنیلوں کے ساتھ قتل ہوا۔
جب اس عظیم تباہی کی خبر ہشام کو پہنچی تو اس نے حنطلہ بن صفوان کو تیس ہزار تازہ دم فوج دے کر افریقا روانہ کیا قیروان پہنچ کر اس نے باغیوں کے سردار عکاشہ کو شکست دی لیکن جلد ہی بربری تین لاکھ کا ٹڈی دل جمع کرکے مقابلہ میں لے آئے اور قیروان پر حملہ کر دیا۔ عرب بہادری سے لڑے۔ عرب عورتیں ہتھیار باندھ کر شہر کی حفاظت کے لیے کمر بستہ ہو گئیں۔ چنانچہ بربریوں کا عظیم الشان لشکر میدان چھوڑ کر بھاگ نکلا اس جنگ میں کم و بیش ڈیڑھ دو لاکھ بربر قتل ہوئے اور ان کی طاقت کا طلسم ٹوٹ گیا۔
دیکھیے مکمل مضمون جنگ ٹورس
اندلس کی فتح کے وقت سے مسلمانوں کی یہ خواہش تھی کہ وہ فرانس پر قبضہ کریں۔ فرانس پر باقاعدہ حملہ بھی ہشام کے زمانہ میں ہوا اور مسلمان کافی حد تک فرانس کے علاقوں کو فتح کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اس سلسلے میں جنگ ٹورس کا ایک اہم مقام ہے۔ کیونکہ اس جنگ میں ناکامی کے بعد مسلمانوں کی پیش قدمی یورپ میں رک گئی۔ اگر جنگ ٹورس میں مسلمان کامیاب ہو جاتے تو دنیا کی تاریخ کچھ اور ہوتی۔
خوارج
[ترمیم]حسب معمول خوارج ہشام کے دور میں بھی اپنی جارحانہ سرگرمیوں میں مصروف رہے لیکن ان کی سرگرمیوں کو سختی سے دبا دیا گیا۔ 111ھ میں والی سیستان یزید بن عریف ہمدانی کو خارجیوں نے برسرعام ان کے گھر پر قتل کر دیا۔ خالد بن عبداللہ القسری والی عراق نے اصفح بن کلبی کو ان کی سرکوبی کے لیے مامور کیا۔ لیکن سیستان کے پہاڑی علاقہ میں گھیر کر خوارج نے ان کی اکثر سپاہ کا صفایا کر دیا۔ موصل اور دیگر علاقوں میں بھی خوارج نے اودھم مچائے رکھا لیکن خالد القسری نے نہایت سختی اور ہوشیاری سے ان بغاوتوں کو کچل دیا۔
امام زید بن علی کا خروج
[ترمیم]ہشام کے دور میں امام زید بن علی نے علم بغاوت بلند کیا۔ اہل کوفہ نے ان کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا۔ اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ یوسف بن عمر والی کوفہ نے ان سے مقابلہ کیا تو حسب سابق سب کوفی ان کا ساتھ چھوڑ گئے۔ ایک تیر لگنے سے امام زید بن علی کی شہادت واقع ہوئی۔ یوں ہشام نے اس بغاوت پر قابو پا لیا۔
عباسی دعوت
[ترمیم]حضرت علی کی فاطمی اولاد کے علاوہ خاندان بنو ہاشم میں سے خلافت کے دو اور گھرانے دعویدار تھے۔ ایک حضرت علی کی غیر فاطمی اولاد اور دوسرے آل عباس جو رسول اکرم کے چچا تھے۔ یوں عبداللہ بن عباس کے بیٹے محمد بن علی بن عبداللہ بن عباس نے اس تحریک کو مزید منظم کیا۔ اور اہم مقامات پر اپنے داعیوں کا جال پھیلا دیا۔ سلیمان اور عمر بن عبدالعزیز کے دور میں یہ تحریک کافی آگے بڑھی۔ ہشام کے دور میں بھی تحریک جاری رہی۔ اور اس تحریک کو ابومسلم خراسانی جیسے داعیوں کی حمایت حاصل رہی۔ اس لیے بعد میں اسی تحریک خلافت بنو امیہ کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا۔
وفات
[ترمیم]743ء، 6 ربیع الثانی 125ھ کو بمقام رصافہ ہشام نے خناق کے مرض میں مبتلا ہو کر وفات پائی۔ وفات کے وقت عمر تقریباً 55 سال اور مدت خلافت پونے بیس سال تھی۔ اس نے اپنی زندگی میں ولید بن یزید ثانی کو جانشینی سے خارج کرکے اپنے بیٹے مسلمہ کو ولی عہد بنانے کی کوشش کی لیکن امرائے دربار کی مخالفت کی بنا پر وہ کامیاب نہ سکا۔ اسی بنا پر ولید اور ہشام کے درمیان رنجش پیدا ہو گئی۔ ولید علاقہ اردن میں ہشام کی موت تک مقیم رہا۔
سیرت و کردار
[ترمیم]ہشام بن عبد الملک کا شمار [بنو امیہ] کے لائق اور کامیاب حکمرانوں میں کیا جاتا ہے۔ وہ نماز و روزہ کا پابند تھا۔ لہولہب سے اسے نفرت تھی۔ مسئلہ خلق قرآن کے بانی کو اس نے قتل کرا دیا۔ فہم و فراست، انتظامی قابلیت، تدبر اور حوصلہ مندی میں وہ امتیازی حیثیت کا مالک تھا۔ ان خصوصیات کے لحاظ سے مورخین اسے امیر معاویہ اور عبد الملک کے بعد تیسرے نمبر پر شمار کرتے ہیں۔ جب تخت نشین ہوا تو اپنے آپ کو مصائب و مشکلات میں گھرا ہوا پایا۔ عربوں کی قبائلی عصبیت، مضری اور یمنی گروہ بندی، رعایا کے مختلف طبقات کے درمیان نفرت کے جذبات، یزید ثانی کی نااہلیت اور عیش پسندی کی بدولت ناقص نظام حکومت، عوامی بے چینی، خوارج کی شورشیں، عباسی دعوت اور جگہ جگہ رونما ہونے والی بغاوتیں اور سازشیں، داخلی خلفشار اور بحران کو ظاہر کر رہی تھیں جس سے ملک دوچار تھا۔ بیرون ملک ترک اور رومی اپنی مخالفانہ سرگرمیوں میں مصروف تھے۔ ان حالات کی موجودگی میں ناممکن تھا کہ کوئی معمولی درجہ کا حکمران بنو امیہ کی حکومت کو خاتمہ سے بچا سکتا۔ لیکن ہشام بن عبد الملک اپنے حوصلہ، تدبر اور مسلسل جدوجہد کی بدولت نہ صرف مخالفین کو کچل دینے میں کامیاب ہوا بلکہ عظیم الشان فتوحات بھی کیں اور اس طرح گرتے ہوئے اموی اقتدار کو سنبھالا دیا۔ سندھ اشیائے کوچک، شمالی افریقہ، فرانس غرض دور دور تک اسلامی افواج فتح کے پھریرے لہراتے ہوئے آگے بڑھتی گئیں اس نے اسلام کی سیاسی مرکزیت کو قائم کرنے کی کوششیں کیں۔ ہشام کی انتظامی صلاحیتیں بھی مسلمہ تھیں عبداللہ بن محمد عباسی کہتا ہے:
’’ میں نے بنو امیہ کے تمام خلفاء کے دفاتر کی جانچ پڑتال کی اور ہشام بن عبد الملک کو رعایا کے حق میں سب سے بہتر پایا ۔‘‘
مدائنی کی رائے ہے کہ :
بنو امیہ کا کوئی خلیفہ ہشام سے زیادہ عمال حکومت اور دفاتر حکومت کی نگرانی کرنے والا نہ تھا۔
مالی معاملات میں وہ کفایت شعاری کا پابند تھا چنانچہ بعض لوگ اسے بخیل یا کنجوس کہتے ہیں۔
ان سب خوبیوں کے سے قطع نظر وہ شکوک شبہات اور بعض اوقات تنگ نظری کا شکار ہوا۔ اپنی اس شکی طبیعت کی وجہ سے آئے دن عمال حکومت کو ایک جگہ سے دوسری جگہ تبدیل کرتا رہتا۔ اعتماد کا یہ فقدان بہت نقصان دہ ثابت ہوا۔ عمال حکومت کو اگر بار بار تبدیل نہ کیا جاتا تو وہ خود اعتمادی کی فضا میں کام کرتے اور یقیناً بہتر نتائج میسر آتے۔ وہ بیس سال تقریباً نامساعد حالات کا مقابلہ کرتا رہا۔ اس نے تمام دشمنوں کو کچل دیا اورملکی نظم و نسق کو ان برائیوں سے پاک کیا جو اس سے پہلے موجود تھیں۔ لیکن ان سب شاندار کارناموں کے باوجود بنو امیہ کو تباہی اور زوال سے بچانا اس کے بس میں نہ تھا۔
مزید دیکھیے
[ترمیم]حوالہ جات
[ترمیم]- 691ء کی پیدائشیں
- دمشق میں پیدا ہونے والی شخصیات
- 743ء کی وفیات
- 6 فروری کی وفیات
- آٹھویں صدی کے اموی خلفا
- اموی خلفاء
- بنو امیہ
- عرب بازنطینی جنگوں کی اموی شخصیات
- الف لیلہ و لیلہ کے افسانوی کردار
- 125ھ کی وفیات
- آٹھویں صدی کی عرب شخصیات
- آٹھویں صدی میں ایشیا کے حکمران
- یورپ میں آٹھویں صدی کے حکمران
- افریقا میں آٹھویں صدی کے فرماں روا
- آٹھویں صدی میں ایشیا کے بادشاہ
- یورپ میں آٹھویں صدی کے فرماں روا