چندریان-2
چندریان کا کمپوزٹ | |
طرز مشن | چاند آربیٹر، لینڈر، rover |
---|---|
آپریٹر | بھارتی خلائی تحقیقِ تنظیم (اسرو) |
ویب سائٹ | www |
مشن دورانیہ | آربیٹر: ~ 7 سال ایلیپسڈ: Error: Invalid start date in first parameter وکرم لینڈر ≤ 14 دن Pragyan rover: ≤ 14 دن |
Spacecraft properties | |
صانع | ہندوستانی خلائی تحقیق تنظیم (ISRO) |
Launch mass | مشترکہ (نم): 3,850 کلوگرام (8,490 پونڈ) مشترکہ (خشک): 1,308 کلوگرام (2,884 پونڈ) آربیٹر (نم): 2,379 کلوگرام (5,245 پونڈ) آربیٹر (خشک): 682 کلوگرام (1,504 پونڈ) وکرم لینڈر (نم): 1,471 کلوگرام (3,243 پونڈ) وکرم لینڈر (خشک): 626 کلوگرام (1,380 پونڈ) پراگیان گاڑی: 27 کلوگرام (60 پونڈ) |
طاقت | آربیٹر: 1 kW
وکرم لینڈر: 650 W پراگیان گاڑی: 50 W |
آغازِ مہم | |
تاریخ اڑان | 22 جولائی 2019، 14:43:12 آئی ایس ٹی (09:13:12 یو ٹی سی) |
راکٹ | جی ایس ایل وی ایم کے سوم |
مقام اڑان | Satish Dhawan Space Centre Second Launch Pad |
ٹھیکے دار | بھارتی خلائی تحقیقِ تنظیم (اسرو) |
Invalid value for parameter "type" | |
Invalid parameter | 20 اگست 2019, 09:02 IST (03:32 UTC) |
چندریان-2 چندریان 1 کے بعد بھارت کا دوسرا چاند پر جانے والا سیارہ ہے۔[1] اسے بھارتی خلائی تحقیقِ تنظیم (اسرو) نے ترقی کیا ہے۔[2][3] چندریان-2 کو سری ہاری کوٹا خلائی مرکز سے 22 جولائی 2019ء کو چاند کے سفر کے لیے جیو سنکرونس سیٹیلائیٹ لانچ وہیکل مارک III کے ذریعے روانہ کیا گیا ہے۔[4][5] چندریان-2 ایک قمری آربیٹر، لینڈر اور گاڑی پر مشتمل ہے۔ اور ان تمام آلات کو بھارت میں ہی تیار کیا گیا ہے۔[6] اس سیارہ کا اہم علمی مقصد نقشہ تیار کرنا اور چاند پر پانی تلاش کرنا ہے۔
لینڈر اور گاڑی چاند کی سطح پر اتریں گے۔ گاڑی ایک پہیا والی آلہ ہے جو چاند کی سطح پر چلے گی اور وہاں موجود کیمیا کا جائزہ لے گی۔ یہ چندریان-2 آربیٹر اور لینڈر کی مدد سے زمین تک ڈاٹا اور حاصل جائزہ بھیجے گی۔[7][8] چندریان-2 کو 14 جولائی 2019ء کو بھارت کے وقت کے مطابق 21:21 بجے روانہ ہونا تھا مگر ایک تکنیکی مسئلہ کی وجہ سے روانہ سے محض ایک گھنٹہ قبل مؤخر کر دیا گیا۔[9][10] 22 جولائی کو بھارت کے وقت کے مطابق 14:43 بجے ستیش دھون خلائی مرکز، سری ہاری کوٹا، نیلور ضلع، آندھرا پردیش سے اسے لانچ کیا گیا۔ اگر چندریان-2 چاند کی سطح پر کامیابی سے اتر جاتا ہے تو ایسا کرنے والا روس، امریکا اور چین کے بعد بھارت چوتھا ملک بن جائے گا۔[11] چندریان-2 کی کامیابی قطب جنوبی چاند کے قریب اترنے کی پہلی مثال ہوگی۔[12][13]
تاریخ
[ترمیم]12 نومبر 2007 کو روس کوسموس یعنی روسی وفاقی خلائی ایجنسی اور اِسرو نے مل کر چندریان دوم منصوبے کے لیے دستخط کیے۔ اِسرو کی بنیادی ذمہ داری مدار میں گردش کرنے والی مشین اور چاند پر چلنے والی گاڑی بنانا تھا جبکہ روس کاسموس کے ذمے چاند پر اترنے والی گاڑی بنانا تھا۔ بھارتی حکومت نے یونین کابینہ میں اُس وقت کے وزیرِ اعظم من موہن سنگھ کی سربراہی میں اس منصوبے کو 18 ستمبر 2008 کو منظور کیا۔ خلائی جہاز کا ڈیزائن اگست 2009 میں مکمل ہوا اور دونوں ملکوں کے ماہرین نے مل کر اس کا جائزہ لیا۔
اگرچہ اِسرو نے چندریان دوم کے لیے متعلقہ ساز و سامان منصوبے کے مطابق طے کر لیا مگر پھر بھی جنوری 2013 میں یہ منصوبہ 2016 تک ملتوی کر دیا گیا کہ روس کوسموس مطلوبہ وقت تک چاند پر اترنے والی گاڑی بنانے میں ناکام رہا۔ بعد میں جب مریخ کو جانے والے فوبوس-گرنٹ مشن کو ناکامی ہوئی تو روس نے اس منصوبے سے ہاتھ کھینچ لیا کہ دونوں منصوبوں میں تکنیکی مماثلت تھی۔ جب روس نے 2015 میں اس منصوبے میں اپنے حصے کی تکمیل سے معذوری ظاہر کی تو بھارت نے چاند پر اترنے والی گاڑی خود سے بنانے کا فیصلہ کیا۔
خلائی جہاز کی روانگی کی تاریخ مارچ 2018 کو متعین کی گئی مگر پھر اپریل اور بعد ازاں اکتوبر تک ملتوی کی گئی تاکہ مزید جانچ کی جا سکے۔ 19 جون 2018 کو اس منصوبے کی چوتھی جامع تکنیکی میٹنگ کے بعد اترنے کے مراحل کو طے کیا گیا۔ روانگی کو 2019 کے پہلے نصف تک ملتوی کر دیا گیا۔ اترنے والی گاڑی کی دو ٹانگیں فروری 2019 کی جانچ میں نقصان کا شکار ہوئیں۔
چندریان دوم کی روانگی پہلے 14 جولائی 2019 کو طے کی گئی اور اندازہ تھا کہ 6 ستمبر 2019 کو اس نے چاند پر اترنا تھا۔ تاہم تکنیکی خرابی کی وجہ سے روانگی موخر کر دی گئی اور پھر 18 جولائی 2019 کو اعلان ہوا کہ 22 جولائی 2019 کو چندریان دوم روانہ ہوگا۔
22 جولائی 2019 چندریان دوم جیو سٹیشنری لانچ وہیکل ایم کے 3 ایم 1 راکٹ پر روانہ سوار ہو کر روانہ ہو گیا۔
مقاصد
[ترمیم]چندریان دوم کا بنیادی کام چاند کی سطح پر اتر کر اس کی سطح پر گاڑی چلانا ہے۔ سائنسی مقاصد میں چند کی سطح کا جائزہ لینا، معدنیات کی تلاش، عناصر کی دستیابی، چاند کی بیرونی فضا اور ہائیڈروکسائل اور پانی کی برف کی تلاش ہے۔ گردش کرنے والی گاڑی چاند کا نقشہ تیار کرے گی تاکہ چاند کا سہ جہتی نقشہ تیار ہو سکے۔ اس پر موجود ریڈار کی مدد سے جنوبی قطب پر پانی کی برف کا مطالعہ اور چاند کی مٹی کی موٹائی جاننا بھی ہے۔ چندریان دوم کا کام چاند پر پانی کی برف کی مقدار اور مقامات کا جائزہ بھی لینا ہے تاکہ بعد ازاں وہاں بھیجے جانے والے آرٹیمس پروگرام کو اس سے فائدہ مل سکے۔
ڈیزائن
[ترمیم]اس مشن کی تیاری کے لیے جیو سنکرونس سیٹلائٹ لانچ وہیکل مارک 3 کو استعمال کیا جانا تھا جس میں 3٫850 کلو وزن کو سری ہری کوٹہ کے جزیرے پر موجود ستیش دھون سے چاند کی طرف روانہ کیا جانا تھا۔ جون 2019 کو مشن کے لیے کل 978 کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے جن میں 603 کروڑ روپے خلائی حصے کے لیے جبکہ 375 کروڑ اس راکٹ کے لیے تھے جو زمین سے خلا تک خلائی جہاز لے کر جاتا۔ پہلے پہل چندریان دوم کو زمین سے مدار میں بھیجا جاتا جو کم سے کم 170جبکہ زیادہ سے زیادہ 40٫400 کلومیٹر پر محیط ہوتا۔ اس کے بعد خلائی جہاز اپنا ایندھن استعمال کرتے ہوئے مدار کو بتدریج بڑھاتا اور آخرکار خلائی جہاز چاند کے مدار میں داخل ہو جاتا۔
گردشی گاڑی
[ترمیم]یہ گاڑی چاند کی سطح سے 100 کلومیٹر کی بلندی پر گردش کرتی رہے گی۔ اس میں پانچ سائنسی آلات موجود ہیں۔ تین نئے ہیں جبکہ دو چندریان اول پر استعمال ہونے والے آلات کی جدید شکل ہیں۔ روانگی کے وقت اس گاڑی کا کل وزن 2٫379 کلو تھا۔ دی آربٹر ہائی ریزولیوشن کیمرے کی مدد سے چاند پر اترنے والی گاڑی کی علیحدگی سے قبل سطح کے عمدہ تصمیم کے مشاہدات کیے جائیں گے۔ گردشی گاڑی کو ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ نے بنا کر اسرو کو 22 جون 2015 میں دے دی تھی۔
روانگی کے وقت کا وزن: 2٫379 کلوگرام
ایندھن کا وزن: 1٫697 کلوگرام
خالص وزن: 682 کلوگرام
وکرم لینڈر
[ترمیم]مشن لینڈر یعنی چاند پر اترنے والی گاڑی کا نام وکرم ہے جو وکرم سرابھائی کے نام پر رکھا گیا ہے جو بھارت کے خلائی پروگرام کے باپ سمجھے جاتے تھے۔
وکرم لینڈر گردشی گاڑی سے الگ ہو کر چاند کے مدار میں داخل ہونے کے لیے اپنے مائع ایندھن کے 800 نیوٹن طاقت کے انجن کو چلائے گا۔ پھر اپنے آلات کی خود سے جانچ کر کے اترنے کی کوشش کرے گا۔ نیچے اترنے میں کامیابی ہوئی تو پھر یہ گاڑی اتار کر پندرہ روز کے لیے سائنسی تحقیق جاری رکھے گا۔ وکرم لینڈر اور چلنے والی گاڑی کا مجموعی وزن 1٫471 کلوگرام ہے۔
وکرم لینڈر کی ساخت کے بارے ابتدائی تحقیق 2013 میں مکمل ہوئی جو احمد آباد کے سپیس ایپلی کیشن سینٹر میں ہوئی۔ لینڈر کے 8 انجن ہیں جن میں سے ہر ایک کی طاقت 50 نیوٹن ہے اور یہ مائع ایندھن سے چلتے ہیں۔ ابتدا میں لینڈر کے لیے مائع ایندھن والے چار انجن سوچے گئے تھے مگر بعد میں ایک وسطی انجن بھی لگایا گیا تاکہ اترنے سے قبل چاند کے مدار میں گردش کرنے میں سہولت رہے۔ اس اضافی انجن کا ایک اور فائدہ یہ بھی ہے کہ نیچے اترنے کے دوران میں اٹھنے والی مٹی کو بھی روکے گا۔
دیگر اہم آلات میں عمدہ تصمیم والا کیمرا، لینڈر کے اترنے کے دوران میں خطرات سے بچاؤ والا کیمرا، لینڈر کے مقام جاننے والا کیمرا، 800 نیوٹن والا بڑا انجن جس کی رفتار کو کم اور زیادہ کیا جا سکتا ہے، بلندی پر کام کرنے والے انجن، بلندی جاننے والا آلہ، لیزر انرشیل ریفرنس اینڈ ایکسلرومیٹر پیکج اور ان آلات کو چلانے والے پروگرام بھی موجود ہیں۔ ان تمام آلات کی جانچ کا کام اکتوبر 2016 میں چلاکری میں شروع ہوا جو کرناٹکا کے چیترادرگا ضلع کا حصہ ہے۔اِسرو نے سطح پر 10 گڑھے بنائے تاکہ نیچے اترنے کے لیے سینسرز کو جانچا جا سکے۔
گراس لفٹ آف ماس: 1٫471 کلو
ایندھن: 845 کلوگرام
ڈرائی ماس: 626 کلوگرام
پراگریان روور
[ترمیم]مشن کی روور کو پراگیان کہا گیا ہے۔ اس کا وزن 27 کلو ہے اور شمسی توانائی سے چلے گی۔ اس کے چھ پہیے ہیں اور ایک سینٹی میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے نصف کلومیٹر کا فاصلہ طے کرے گی۔ اس کے علاوہ مختلف جگہوں پر مٹی وغیرہ کا کیمیائی تجزیہ کر کے لینڈر کو معلومات بھیجتی رہے گی جو پھر اسے زمین کو بھیج دے گی۔ رہنمائی کے لیے روور میں سہ جہتی تصویر بنانے کے لیے کیمرے نصب ہیں۔ ان میں سے دو کیمرے ایک میگا پکسل اور ایک رنگ میں کام کرتے ہیں اور گاڑی کے اردگرد کی تصاویر لے کر سطح کا ڈیجیٹل نمونہ بناتے ہیں۔ آئی آئی ٹی کانپور نے روشنی کی مدد سے نقشے کی تیاری اور گاڑی کی حرکت کی منصوبہ بندی تیار کی۔
کنٹرول اور موٹر ڈائنامکس: روور میں مخصوص راکر بوگی قسم کا سسپنشن سسٹم ہے اور اس کے چھ پہیے ہیں۔ ہر ایک پہیا الگ ڈی سی موٹر سے جڑا ہوا ہے۔ مڑنے کے لیے پہیوں کی رفتار کو کم و بیش کر کے یا پہیے پھسل کر موڑ کاٹیں گے۔
توقع ہے کہ پراگیان روور چاند کے ایک روز یا زمین کے 14 روز کے برابر کام کرے گا مگر اس پر خود کو بند کرنے اور پھر چلانے کی صلاحیت موجود ہے، سو یہ دورانیہ اور بھی بڑھ سکتا ہے۔
پے لوڈ
[ترمیم]اسرو نے گردشی گاڑی کے لیے 8 اور لینڈر کے لیے چار جبکہ روور کے لیے دو مختلف آلات چنے۔ ابتدا میں کہا گیا کہ ناسا اور یورپین سپیس ایجنسی بھی مشن کے لیے آلات مہیا کریں گے۔ 2010 میں اسرو نے واضح کیا کہ وزن کی گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے اس مشن پر غیر ملکی آلات نہیں بھیجے جا سکیں گے۔ تاہم مشن کی روانگی سے ایک ماہ قبل بتایا گیا کہ ناسا نے ایک چھوٹا لیزر ریٹرو ریفلکٹر بھیجا ہے جو اس مشن کے دوران میں چاند کے فاصلوں کو ماپے گا۔
آربٹر پے لوڈ
[ترمیم]- چندریان دو م لارج ایریا سافٹ ایکس رے سپیکٹرو میٹر: اسرو سیٹلائٹ سنٹر، بنگلور
- سولر ایکس رے مانیٹر کو احمد آباد کی فزیکل ریسرچ لیبارٹری نے بنایا اور اس کا کام چاند کی سطح پر موجود اہم عناصر کا جائزہ لینا تھا۔
- دہری فریکوئنسی والے ایل اور ایس بینڈ سنتھیٹک اپرچر ریڈارکو احمد آباد کے سپیس ایپلی کیشنز سینٹر نے بنایا اور اس کا کام چاند کی سطح کے نیچے کئی میٹر کی گہرائی تک کا جائزہ لیا جا سکے۔ اس آلے میں سایہ دار جگہوں پر برف کی موجودگی کے مزید ثبوت تلاش کرنے کی ذمہ داری بھی ہے۔ امیجنگ انفرا ریڈ سپکٹرومیٹر کو سپیس ایپلی کیشن سینٹر، احمد آباد نے تیار کیا۔ اس کا کام چاند کی سطح پر معدنیات، پانی کے مالیکیول اور ہائیڈراکسل کی موجودگی کا نقشہ تیار کرنا ہے۔
- چندریان دوم ایٹمسفیئر کمپوزیشنل ایکسپلورر دوم کا کام چاند کی بیرونی فضا کا مطالعہ کرنا ہے۔
- سطح کا نقشہ تیار کرنے والا کیمرا دوم بھی احمد آباد کے سپیس ایپلی کیشن سینٹرنے تیار کیا اور اس کا کام چاند کی معدنیات اور جغرافیہ کا سہ بعدی نقشہ تیار کرنا ہے۔
- ریڈیو اناٹومی آف مون باؤنڈ ہائپر سنسیٹو آئینو سفیئر اینڈ ایٹمسفیئر- دہری فریکوئنسی پر کام کرنے والا سائنسی تجرباتی آلہ ہے۔
- آربٹر ہائی ریزولیوشن کیمرا: اس کا مقصد اترنے کے لیے خطرات سے محفوظ جگہ تلاش کرنا ہے۔ اس کی تصاویر کی مدد سے چاند کی سطح کے نشیب و فراز کا ڈیجیٹل نقشہ تیار کیا جائے گا۔
وکرم لینڈر پے لوڈ
[ترمیم]- انسٹرومنٹ فار لیونر سائزمک ایکٹویٹی کا مقصد چاند پر گاڑی کے اترنے کے مقام کے آس پاس زلزلوں کا مطالعہ ہے۔
- چندرا کے سرفیس فزیکل ایکسپیریمنٹ تھرمل پروب کا مقصد چاند کی سطح پر موجود ذرات کی حرارتی خصوصیات کاجائزہ لینا ہے۔
- رمبھا ایل پی جنگمیئر آلے کا مقصد چاند کی سطح پر موجود پلازما کی کثافت اور اس میں تغیر کا مطالعہ کرنا ہے۔
- ناسا کی طرف سے بھیجے جانے والے لیزر ریٹرو ریفلکٹر ارے کا مقصد چاند اور زمین کے فاصلے کی مستند پیمائش کرنا ہے۔
پراگیان گاڑی کا سامان
[ترمیم]- لیزر انڈیوسڈ بریک ڈاؤن سپیکٹرو سکوپ جسے بنگلور کی الیکٹرو آپٹک سسٹمز لیبارٹری نے تیار کیا۔
- الفا پارٹیکل انڈیوسڈ ایکسرے سپیکٹرو سکوپ جسے احمد آباد میں تیار کیا گیا۔
ٹیم
[ترمیم]ذیل میں ان ماہرین کے نام ہیں جنھوں نے اس منصوبے کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا مگر بیرونی دنیا ان سے آشنا نہیں:
- متیا ونیتھا – پراجیکٹ ڈائریکٹر، چندریان دوم
- ریتو کریدھل – مشن ڈائریکٹر، چندریان دوم
- جیا پرکاش – لیونر ٹیم
- ایس پنڈیان – سابقہ ڈائریکٹر، ستیش دھونس پیس سینٹر
- پی کنہی کرشنن – سپیس کرافٹ اینڈ لینڈر فنکشنز اور ڈائریکٹر
- وی وی سری نیواسن – خلائی جہاز کی روانگی کے بعد اس کی نگرانی
- کیلاش وادیوو سیوان – اسرو
نوٹ:یہ مشن ناکام ہو گیا اور بھارت کا خلائی جہاز سے رابطہ ٹوٹ گیا
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ "ISRO begins flight integration activity for Chandrayaan-2, as scientists tests lander and rover"۔ The Indian Express۔ Press Trust of India۔ 25 اکتوبر 2017۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 دسمبر 2017
- ↑ Chethan Kumar (10 جون 2019)۔ "Chandrayaan-2 nearly ready for جولائی launch"۔ The Times of India۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 جولائی 2019
- ↑ Madhumathi d. s (9 جون 2019)۔ "ISRO gears up for Chandrayaan-2 mission"۔ The Hindu
- ↑ https://www.indiatoday.in/science/story/chandrayaan-2-launch-bahubali-rocket-takeoff-2-43-pm-monday-1572017-2019-07-21
- ↑ Surendra Singh (5 اگست 2018)۔ "Chandrayaan-2 launch put off: India, Israel in lunar race for 4th position"۔ The Times of India۔ Times News Network۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 اگست 2018
- ↑ Pallava Bagla (4 اگست 2018)۔ "India Slips in Lunar Race with Israel As Ambitious Mission Hits Delays"۔ NDTV۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 اگست 2018
- ↑ T. S. Subramanian (4 جنوری 2007)۔ "ISRO plans Moon rover"۔ The Hindu۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 اکتوبر 2008
- ↑ T. Rathinavel، Jitendra Singh (24 نومبر 2016)۔ "Question No. 1084: Deployment of Rover on Lunar Surface" (PDF)۔ راجیہ سبھا
- ↑ "Press Meet – Briefing by Dr. K Sivan, Chairman, ISRO"۔ isro.gov.in۔ بھارتی خلائی تحقیقِ تنظیم۔ 12 جون 2019۔ 13 جون 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 جون 2019
- ↑
- ↑ "India Plans to Launch Moon Mission in جولائی" (بزبان انگریزی)۔ 2019-06-12۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 جون 2019
- ↑ Pallava Bagla (31 جنوری 2018)۔ "India plans tricky and unprecedented landing near moon's south pole"۔ Science۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 فروری 2018
- ↑ "Potential Landing Sites for Chandrayaan-2 Lander in Southern Hemisphere of Moon" (PDF)۔ 22 اگست 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ